رسائی کے لنکس

پاکستان کے لیے امریکی امداد کے نتائج مایوس کن، رپورٹ


ایک بین الاقوامی تحقیقاتی ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے مختلف شعبوں میں پاکستان کو دی جانے والی سول امداد کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں ۔

ایک بین الاقوامی تحقیقاتی ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے مختلف شعبوں میں پاکستان کو دی جانے والی سول امداد کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں ۔

بین الاقوامی ترقی کے لیے کام کرنے والے ادارے 'سینٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ' نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں معاشی ترقی، تعلیم کے فروغ اور غربت کے خاتمے سمیت سماجی بہبود کے 10 شعبوں میں پاکستان کو ملنے والی امریکی امداداور اس کے نتائج کا جائزہ لیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق امریکہ کی جانب سے پاکستان میں صرف سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ذریعے "اصلاح پسندوں " کو دی جانے والی محدود امداد کے اطمینان بخش نتائج برآمد ہوئے ہیں جب کہ اس کے علاوہ دیگر تمام شعبہ جات میں صورت حال خاصی مایوس کن ہے۔

ادارے نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کے لیے سالانہ امریکی امداد میں کٹوتی کی تجویز دیتے ہوئے رقم کی مختلف عالمی اداروں اور دیگر ذرائع کے ذریعے تقسیم کی سفارش کی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی عوام میں امریکہ کے خلاف موجود نفرت کے باعث امریکی حکومت اور اہلکار پاکستان میں جاری ترقیاتی عمل اور سرگرمیوں میں کھل کر شریک ہونے سے قاصر ہیں۔ ان حالات کے پیشِ نظر امریکہ کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو دی جانے والی امداد اپنے اتحادی ملکوں مثلاً برطانیہ کی ان امدادی ایجنسیوں اور عالمی اداروں کو فراہم کرے جو پاکستان میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں غیر فوجی مقاصد کے لیے پاکستان کو کل ساڑھے سات ارب ڈالر کی امداد کی فراہمی کےلیے اوباما انتظامیہ کی جانب سے 2010ء میں منظور کیے گئے 'کیری لوگر قانون' کا ذکر بھی ہے۔

مذکورہ امدادی پیکج کے تحت پاکستان کو پانچ برسوں تک ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ امداد ملنی تھی لیکن رپورٹ کے مطابق سال 2010ء کے بعد سے پاکستان کو طے شدہ سالانہ امداد فراہم نہیں کی جاسکی ہے اور اس میں ہر گزرتے سال کے ساتھ کمی واقع ہورہی ہے۔

رپورٹ میں اوباما انتظامیہ اور کانگریس کو سفارش کی گئی ہے کہ 'کیری لوگر' قانون کے تحت پاکستان کو دی جانے والی امداد کا دورانیہ پانچ سال سے بڑھا کر 10 سال کردیا جائے تاکہ امداد کی بہتر تقسیم اور اس کے نتائج کا حصول ممکن بنایا جاسکے۔

رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں امریکی اہداف پر امریکی حکام کے درمیان موجود اختلافات اور ابہام کی بھی نشاندہی کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ امریکی امداد کے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہونے کی ایک وجہ خود امریکی پالیسی میں موجود خرابیاں بھی ہیں۔

رپورٹ کے شریک مصنف ملان وشنو کے بقول امریکہ کی پاکستان پالیسی پر سلامتی سے متعلق معاملات حاوی رہے ہیں اور امریکی اداروں کے مابین پاکستان کے استحکام اور ترقی سے متعلق طویل المدت حکمتِ عملی پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عارضی مقاصد کے حصول کی امریکی پالیسی کے باعث امریکی امدادی اداروں خصوصاً 'یو ایس ایڈ' کی پاکستان میں کارکردگی پر اثر پڑ رہا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق شفافیت اور واضح مقاصد کی عدم موجودگی، غیر حقیقی توقعات اور کئی دیگر عوامل کی وجہ سے پاکستان کے لیے امریکی امدادی منصوبے مطلوبہ نتائج نہیں دے پارہے ہیں۔

رپورٹ میں معاشی اور ترقیاتی منصوبوں پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان قریبی روابط، امداد کے مطلوبہ اہداف کے حصول کےلیے جلد بازی سے گریز، پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور توانائی کے بحران کے خاتمے کے فوری اقدامات کے لیے مزید امداد کی فراہمی کی سفارش کی گئی ہے۔

رپورٹ میں امریکی حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ پاکستان کے لیے اپنے امدادی منصوبوں میں دوست ممالک کی تنظیموں اور ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں کو بھی شریک کرے اور امداد دینے کے ساتھ ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع بھی پیدا کرے۔

رپورٹ میں پاکستان کو دی جانے والی امریکی امداد میں شفافیت کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
XS
SM
MD
LG