امریکہ اور جنوبی کوریا کی سالانہ مسلح فوجی مشقیں شروع ہوگئی ہیں جنہیں دونوں ملکوں نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی مشترکہ مشق قرار دیا ہے۔
فوجی مشقوں کا آغاز ہفتے کو جزیرۂ نما کوریا میں ہوا۔ جنوبی کوریا کی وزارت دفاع کے مطابق مشقوں میں جنوب کے تین لاکھ جب کہ امریکہ کے 17 ہزار سے زائد فوجی اہلکار حصہ لے رہے ہیں۔
مشقوں کے آغاز سے قبل امریکی محکمۂ دفاع کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق جنوبی کوریا کے شہر پوہانگ کے نزدیک ہونے والی ان مشقوں میں امریکی میرینز کے 55 ہوائی جہاز اور امریکہ اور جنوبی کوریا کے 30 بحری جنگی جہاز شریک ہیں۔
مشترکہ مشقیں آٹھ ہفتوں تک جاری رہیں گی جن میں شریک دونوں ملکوں کے فوجی دستے بری، بحری اور فضائی تینوں محاذوں پر دشمن کےمقابلے کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گے۔
شمالی کوریا نے حسبِ معمول اس بار بھی مشقوں کے آغاز سے کئی روز قبل سے ہی جنوبی کوریا اور امریکہ کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ تیز کردیا تھا جو تاحال جاری ہے۔
گزشتہ روز شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان سے منسوب یہ بیان سامنے آیا تھا کہ انہوں نے ملکی سائنس دانوں کو مزید جوہری تجربات کرنے کی ہدایت کی ہے۔
شمالی کوریا کی فوج نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ امریکہ اور جنوبی کوریا کے افواج کے مقابلے پر "مخصوص کوریائی انداز کے انتہائی سرعت سے کیے جانے والے حملے" کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
شمالی کوریا کے اس بیان پر جنوبی کوریا کی وزارت دفاع نے پیانگ یانگ کو خبردار کیا ہے کہ وہ "اپنا رویہ ٹھیک کرے اور خطے میں کشیدگی کو ہوا دینے کے اقدامات سے باز رہے۔"
شمالی کوریا کی آب دوز لاپتا
دریں اثنا امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' نے دعویٰ کیا ہے کہ شمالی کوریا کی ایک آب دوز ملک کے مشرقی ساحل سے لاپتا ہوگئی ہے۔
'سی این این' نے امریکی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ شمالی کوریا کی افواج گزشتہ کئی روز سے آب دوز تلاش کر رہی ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے آب دوز کی تلاش کی سرگرمیوں اور گمشدگی کی گزشتہ کئی روز سے جاری تحقیقات پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے۔
'سی این این' کا کہنا ہے کہ تاحال یہ واضح نہیں کہ آب دوز کسی زیرِ آب مشن پر ہے یا کسی حادثے کا شکار ہو کر ڈوب گئی ہے۔
اطلاعات ہیں کہ آب دوز معمول کی ایک مشق انجام دے رہی تھی جب اس میں بعض تیکنیکی خرابیاں پیدا ہوگئیں۔