رسائی کے لنکس

’بلیک گرلز ووٹ‘ نامی تنظیم کی امریکی خواتین کو فعال ووٹر بنانے کی کوشش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وائس آف امریکہ کی فائز المسری نے ریاست میری لینڈ کے صدر مقام بالٹی مور سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس تنظیم کا بڑا ہدف خواتین کو ووٹ ڈالنے کے لیے متحرک کرنے سے کہیں آگے ہے۔

’بلیک گرلز ووٹ‘ ایک غیر منافع بخش اور ایک غیر جانبدار تنظیم ہے۔ یہ تنظیم افریقی امریکی خواتین کو فعال ووٹر بننے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔پچھلے سال نومبر میں اپنے قائم ہونے کے بعد سے اس گروپ نے دس ہزار پانچ سو سے زیادہ خواتین کا اندراج کیا ہے۔

لیکن وائس آف امریکہ کی فائز المسری نے ریاست میری لینڈ کے صدر مقام بالٹی مور سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس تنظیم کا بڑا ہدف خواتین کو ووٹ ڈالنے کے لیے متحرک کرنے سے کہیں آگے ہے۔

امریکہ میں صدارتی انتخابات میں اب تین مہینے سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے۔ اور ایسے میں جب کہ کچھ امریکیوں کو پہلے ہی پتا ہے کہ وہ کس کے حق میں ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، کئی دوسرے ووٹروں نے ابھی تک اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے اور اس کے علاوہ یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو انتخابی عمل میں شریک ہونے سے ہچکچا رہے ہیں۔

’بلیک گرلز ووٹ‘ کی بانی نائیکی رابنسن محسوس کرتی ہیں کہ اقلیتوں کے ووٹوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے باوجود بہت سی نوجوان افریقی امریکی خواتین ووٹ دینے سے ہچکچاتی ہیں۔

’’ہمیں معلوم ہے کہ 2008ء اور پھر 2012ء میں یہ سیاہ فام خواتین تھیں جنہوں نے امریکی صدارت کا فیصلہ صاد کیا۔ ایک تھنک ٹینک سینٹر فار امریکن پراگریس کے مطابق 76 فی صد افریقی امریکی خواتین نے ووٹ دینے کے لیے اپنا نام درج کرایا اور ان میں سے 70 فی صد نے اپنے اس حق کا استعمال کیا۔‘‘

اس لیے 19 سے 25 سال عمروں کی نوجوان افریقی امریکی خواتین کو انتخابات کے دن کیوں اپنے گھروں میں بیٹھیں گی؟ تنظیم کی بانی اس حوالے سے کہتی ہیں کہ ’’بعض اُوقات انہیں اس چیز کا شعور نہیں ہوتا کہ ووٹ ڈالنا کیا ہے، ووٹ دینا کیا ہوتا ہے، اور اس کا ان کی روزمرہ زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے۔‘‘

وہ کہتی ہیں کہ اس کا کلیدی پہلو انہیں یہ دکھانا ہے کہ ان کے ووٹ اور ان کی روزمرہ زندگی کے درمیان کیا تعلق ہے۔ مثال کے طور پر ان کے علاقے میں ہونے والی قتل کی کسی واردات پر حکومت کے رد عمل پر اثر انداز ہونا وغیرہ ’’یہ اس آبادی میں پولیس کی سڑکوں پر گشت کا معاملہ ہو، چاہے وہ سڑک کے اس حصے میں روشنی کی فراہمی کی بات ہو، چاہے وہ افریقی امریکی مردوں کے لیے زیادہ معاشی مواقعوں کا معاملہ ہو، ان کا تعلق پالیسی سے ہے۔‘‘

کمیونٹی کے اندر راسخ یہ گروپ خواتین سے اسٹوروں میں، آرائش گیسو کی دکانوں میں، ریستورانوں میں اور کالج کے احاطوں میں ملاقات کرتا ہے۔

ایک طالبہ کیریا بینکس اس سلسلے میں کہتی ہیں کہ ’’ میں آج اپنے ووٹ کا اندراج کرانے اور ’بلیک گرلز ووٹ‘ کی رکن بننے کے لیے آئی ہوں۔

اس سے پہلے کیریا بینکس نے کبھی اپنے ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا۔ ’’میرا خیال ہے کہ اب تبدیلی کا وقت آ گیا ہے۔‘‘

’بلیک گرلز ووٹ‘ گروپ کی بانی کہتی ہیں کہ نوجوان نسل کو جمہوری عمل کے بارے میں بتانا اور سمجھانا اس لیے اہم ہے کہ تاکہ انہیں یہ سمجھنے میں مدد مل سکے کہ ان کا ووٹ کیا اثر رکھتا ہے ۔۔۔ ایسے امیدواروں کا چناؤ جوان کے نظریات کی نمائندگی کریں کیسے ان کی کمیونیٹز میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG