رسائی کے لنکس

چین میں میزائل ذخیرہ کرنے کے 110گوداموں کی تعمیر کا انکشاف، امریکہ کا اظہار تشویش


بیجنگ میں فوجی پریڈ کے دوران جوہری بیلسٹک میزائلوں کی نمائش۔ فائل فوٹو
بیجنگ میں فوجی پریڈ کے دوران جوہری بیلسٹک میزائلوں کی نمائش۔ فائل فوٹو

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان اور کانگریس کے ری پبلکن ارکان نے چین کی جوہری فورس سے متعلق اس نئی رپورٹ پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بیجنگ میزائل ذخیرہ کرنے کے لیے مزید 110 تنصیبات تعمیر کر رہا ہے۔

پیر کے روز سائنس دانوں کی امریکی فیڈریشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر یہ ظاہر کرتی ہیں کہ چین شن جانگ کے مشرقی حصے میں ہامی کے قریب نئے جوہری گودام بنا رہا ہے۔

اس رپورٹ سے چند ہفتے قبل ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چین کے جنوب مشرقی علاقے سے تقریباً 240 میل دور صحرائی علاقے یومن میں میزائل ذخیرہ کرنے کے لیے 120 گوداموں کی تعمیر جاری ہے۔

یو ایس سٹریٹیجک کمانڈ نے نیویارک ٹائمز میں امریکن فیڈریشن آف سائنٹسٹس (اے ایف ایس) کی رپورٹ کے ساتھ منسلک اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ حالیہ دو مہینوں میں یہ دوسری مرتبہ ہے کہ لوگوں کو اس خطرے کے متعلق پتا چلا ہے جس کے بارے میں ہم کہتے رہے ہیں کہ دنیا کو اس کا سامنا ہے اور رازداری کی چادر نے اسے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

بیجنگ میں فوجی پریڈ کے موقع پر میزائلوں کی نمائش کی جا رہی ہے۔ فائل فوٹو
بیجنگ میں فوجی پریڈ کے موقع پر میزائلوں کی نمائش کی جا رہی ہے۔ فائل فوٹو

امریکہ کے محکمہ خارجہ نے جولائی کے شروع میں چین کے جوہری ذخائر میں اضافوں پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیجنگ عشروں سے کم سے کم جوہری ڈیٹرنس رکھنے کی سٹریٹجی سے انحراف کر رہا ہے۔ محکمہ خارجہ نے چین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ہتھیاروں کی دوڑ کو عدم استحکام سے بچانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔

ری پبلیکن کانگریس میں مائیک ٹرنر نے، جو کانگریس کی سٹریٹیجک فورسز سے متعلق آرمڈ سروسز سب کمیٹی کے رکن بھی ہیں، کہا ہے کہ چین کے جوہری ذخائر میں اضافہ انتہائی غیر معمولی ہے اور یہ صاف ظاہر ہے کہ وہ امریکہ اور ہمارے اتحادیوں کو دھمکانے کے لیے جوہری ہتھیار نصب کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چین کی جانب سے ہتھیاروں پر کنٹرول سے متعلق بات چیت سے انکار تشویش کی بات ہونی چاہیے اور اس عمل کی تمام ذمہ دار اقوام کی جانب سے مذمت کی جانی چاہیے۔

یوان کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے ایک اور ری پبلیکن رکن مائیک راگرزکا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے جوہری ذخائر قائم کرنے کا عمل امریکہ کے جوہری ڈیٹرنس کو تیزی سے جدید بنانے کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔

پینٹاگان کی 2020 کی ایک رپورٹ میں یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ چین کے جوہری ہتھیاروں کے ذخائر 200 سے کم ہیں اور یہ اندازہ ظاہر کیا گیا ہے کہ بیجنگ جس رفتار سے اپنی فورسز کو جدید بنا رہا ہے اور اس میں اضافہ کر رہا ہے، اس کی قوت میں کم ازکم دو گنا اضافہ ہو جائے گا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے پاس تقریباً 3800 جوہری ہتھیار ہیں اور محکمہ خارجہ کی فیکٹ شیٹ کے مطابق یکم مارچ کو ان میں سے 1357 کو نصب کیا ہوا تھا۔

واشنگٹن متعدد بار چین سے کہہ چکا ہے کہ وہ ہتھیاروں پر کنٹرول کے معاہدے میں روس اور اس کے ساتھ شامل ہو جائے۔

بیجنگ کا کہنا ہے کہ اس کے ہتھیاروں کے ذخائر امریکہ اور روس کے مقابلے میں کم ہیں اور وہ برابری اور باہمی احترام کی بنیاد پر سٹریٹیجک سیکیورٹی سے متعلق دو طرفہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

XS
SM
MD
LG