رسائی کے لنکس

پشاور کی عدالت میں شہری کے قتل پر امریکہ کی مذمت، ملزم کے حق میں مظاہرہ


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی ایک عدالت میں توہینِ مذہب کے ملزم طاہر احمد نسیم کو قتل کرنے والے ملزم کو تین روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں اس واقعے کی مذمت کر رہی ہیں تو وہیں بعض مذہبی حلقوں کی جانب سے ملزم کے اس اقدام کو سراہا جا رہا ہے۔

جمعرات کو پشاور میں مذہبی جماعت 'اہلسنت و الجماعت' کے زیرِ اہتمام ملزم کے حق میں ریلی بھی نکالی گئی۔

بدھ کو ایڈیشنل سیشن جج شوکت اللہ کی عدالت میں کیس کی سماعت جاری تھی جب ملزم نے پستول نکال کر جج کے سامنے طاہر احمد پر فائرنگ شروع کر دی تھی جس سے وہ موقع پر ہلاک ہو گئے تھے۔

پولیس کے مطابق طاہر احمد نسیم کا تعلق پشاور کے 'اچینی بالہ' علاقہ سے تھا اور گزشتہ روز انہیں عدالت میں پیشی کے لیے جوڈیشل کمپلیکس لایا گیا جہاں ان کے خلاف توہین مذہب کے مقدمے کی سماعت ہونی تھی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پولیس ایس ایچ او، مثل خان نے بتایا کہ اہل محلہ کو طاہر احمد نسیم کے عقیدے کے حوالے سے گزشتہ چند سالوں سے تحفظات تھے جو بعدازاں دُور ہو گئے تھے۔

لیکن اپریل 2018 میں ایک مبینہ ویڈیو میں مذہب سے متعلق دعوے کرنے پر اُنہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

مثل خان کا کہنا ہے کہ پولیس اس بات کی بھی تفتیش کر رہی ہے کہ ملزم کے پاس پستول کہاں سے آیا۔

دوسری جانب امریکی محکمۂ خارجہ نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ میں مقیم طاہر احمد نسیم کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔

امریکی محکمۂ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ طاہر نسیم امریکہ کے شہری تھے جنہیں پاکستان کی ایک عدالت کے کمرے میں قتل کیا گیا جس پر امریکہ کو شدید جھٹکا لگا ہے۔

بیان کے مطابق طاہر نسیم کی 2018 میں گرفتاری کے بعد امریکہ کی حکومت نے اُنہیں قونصلر امداد فراہم کیں جب کہ پاکستان کے سینئر حکام کی توجہ بھی اس جانب مبذول کرائی لیکن طاہر نسیم کو شرمناکہ سانحے سے محفوظ نہ رکھا جا سکا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ طاہر نسیم کے اہلِ خانہ سے تعزیت کرتا ہے اور پاکستان پر زور دیتا ہے کہ وہ فوری طور پر توہینِ مذہب کے قانون اور نظامِ انصاف میں اصلاحات متعارف کرائے جس سے آئندہ ایسے شرمناک واقعات کی روک تھام ہو سکے​۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مشتبہ شخص کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

پشاور پولیس تھانہ شرقی کے مطابق ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر کے اس کا تین روزہ ریمانڈ حاصل کر لیا گیا ہے۔

طاہر احمد نسیم کے قتل کے بعد یہ اطلاعات بھی گردش کر رہی تھیں کہ شاید وہ احمدی ہیں۔

جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے طاہر احمد نسیم کے احمدی ہونے کے تاثر کو رد کیا ہے۔

انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ طاہر احمد نسیم احمدی پیدا ضرور ہوئے تھے تاہم وہ احمدیہ کمیونٹی بہت سال پہلے چھوڑ گئے تھے۔

جماعت احمدیہ کے مطابق طاہر احمد نسیم کا خاندان عرصہ دراز سے امریکہ میں مقیم ہے۔

اہل محلہ کیا کہتے ہیں؟

طاہر نسیم کے بارے میں علاقے کے لوگ زیادہ بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ البتہ ان کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ بھی امریکی شہری تھے اور امریکہ سے واپس آنے کے بعد یہاں پر لوگون سے مذہبی معاملات پر مناظرے کیا کرتے تھے۔

سوشل میڈیا پر بہت ساری متنازع ویڈیوز کے علاوہ ایک ویڈیو میں وہ مدرسے کے ایک طالب علم کے ساتھ محو گفتگو ہیں جس کی بنیاد پر اُن کے خلاف توہین مذہب کے الزامات کے تحت مقدمہ درج ہوا تھا۔

پشاور کا جوڈیشل کمپلیکس خیبر روڈ سے ملحقہ انتہائی ہائی سیکیورٹی زون میں ہے جہاں صوبائی اسمبلی کی عمارت، پشاور ہائی کورٹ، وزیر اعلٰی سیکریٹریٹ اور گورنر ہاوس واقع ہیں۔ اسی وجہ سے مسلح شخص کے عدالت تک پہنچ جانے پر بھی کافی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

ہیومن رائٹس کمشن پاکستان کے مطابق یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا واقع نہیں ہے اور مستقبل میں بھی ایسے واقعات پیش آ سکتے ہین۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو کوئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔ اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ بہت سے افراد ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں کیوں کہ اُنہیں میڈیا، عدالت یا کسی اور پلیٹ فارم میں اپنے دفاع کا موقع ہی نہیں مل پاتا۔

XS
SM
MD
LG