رسائی کے لنکس

امریکی عدالت نے 1500 عراقیوں کی بے دخلی روک دی


فائل
فائل

ایک امریکی عدالت نے حکومت کو ان 1500 عراقی شہریوں کو واپس عراق بھیجنے سے روک دیا ہے جنہیں امریکی حکومت بے دخل کرنا چاہتی تھی۔

امریکی ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ کی ایک عدالت کے جج مارک گولڈ اسمتھ نے منگل کو اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ جب تک امریکی حکومت ان افراد کی جانب سے دائر پناہ کی درخواستوں کا حتمی فیصلہ نہیں کرلیتی اس وقت تک انہیں عراق واپس نہ بھیجا جائے۔

فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ اگر ان عراقیوں کو ان کے وطن واپس بھیجا گیا تو ان کے قتل، ان پر تشدد اور انہیں انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کا خطرہ ہے۔

ان 1500 افراد میں 100 وہ عراقی کیتھولک مسیحی بھی شامل ہیں جنہیں گزشتہ ماہ مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کے شبہے میں امریکی حکام نے ڈیٹرائٹ کے نواحی علاقوں سے حراست میں لیا تھا۔

ان افراد نے ابتداً امریکہ سے اپنی بے دخلی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا جس کے بعد مقدمے میں عراق سے تعلق رکھنے والے کئی مسیحی اور کرد پناہ گزین اور دوسرے افراد بھی فریق بن گئے تھے جن پر امریکہ میں قیام کے دوران مختلف مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔

امریکہ میں شہری آزادیوں کے تحفظ کے لیے سرگرم ایک تنظیم 'امیریکن سول لبرٹیز یونین'، جس نے درخواست گزاروں کی طرف سے مقدمے کی پیروی کی تھی، فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

تنظیم نے کہا ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں پناہ کی درخواستوں کا فیصلہ ہونےسے قبل ان افراد کی امریکہ سے بے دخلی کا خطرہ ٹل گیا ہے۔

عدالت کے جج مارک گولڈ اسمتھ نے حکام کو ان پناہ گزینوں کو 24 جولائی تک بے دخل کرنے سے روک دیا ہے جب کہ مقدمے سے متعلق دیگر پہلووں کی سماعت کے لیے بدھ کا دن مقرر کیا ہے۔

مقدمے کی پیروی کرنے والی تنظیم کی وکیل نو یوحنا نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ عدالت بے دخل نہ کرنے کی تاریخ 24 جولائی سے بڑھا بھی سکتی ہے۔

امریکی حکام کی طرف ان عراقی شہریوں کی بے دخلی کا صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اس حکم نامے سے کوئی تعلق نہیں جس کے ذریعے انہوں نے چھ مسلم ملکوں کے شہریوں کی امریکہ آمد پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔

XS
SM
MD
LG