رسائی کے لنکس

اسرائیل کو ہتھیاروں کی منتقلی پر ایک امریکی عہدہ دار کا استعفیٰ، وجوہات کیا تھیں؟


استعفی دینے والے امریکی عہدےدار جاش پال امریکہ کی جانب سے غیر ملکی حکومتوں کو ہتھیار منتقل کرنے کے عمل کا حصہ تھے،کہتے ہیں کہ امریکی پالیسیوں نے اسرائیل کو سویلینز کے جانی نقصان سے قطع نظر جوابی حملے کرنے کے لئے "گرین لائٹ" دی ۔
استعفی دینے والے امریکی عہدےدار جاش پال امریکہ کی جانب سے غیر ملکی حکومتوں کو ہتھیار منتقل کرنے کے عمل کا حصہ تھے،کہتے ہیں کہ امریکی پالیسیوں نے اسرائیل کو سویلینز کے جانی نقصان سے قطع نظر جوابی حملے کرنے کے لئے "گرین لائٹ" دی ۔
اسرائیل کے خلاف حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کے جواب میں غزہ میں اسرائیل کی جوابی کارروائی کی غیر متزلزل حمایت پر بائیڈن انتظامیہ کے اندر اندرونی اختلاف حال ہی میں ایک امریکی عہدہ دار کے استعفیٰ سےسامنے آئے ہیں۔
جاش پال، چند روز قبل تک اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اس بیورو میں کانگریس اور عوامی امور کے ڈائریکٹر تھے جو غیر ملکی حکومتوں کو ہتھیاروں کی منتقلی اور سیکیورٹی امداد سے متعلق ہے، انہوں نےان پالیسیوں پر احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ سویلینز کی ہلاکتوں کی پرواہ کیے بغیر،اسرائیل کی جوابی کارروائیوں کے لیے، "گرین لائٹ" یعنی اجازت دینے کے مترادف ہیں۔

محکمہ خارجہ نے پال کے استعفیٰ پر یہ کہتے ہوئے کوئی براہ راست تبصرہ نہیں کیاکہ یہ عملے (کی سطح )کا معاملہ ہے۔

محکمہ خارجہ کے عملے کو لکھے گئے خط میں، امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے ان ذاتی مشکلات کو تسلیم کیا جن کا کچھ لوگوں کو سامنا ہے۔

جاش پال نے وائٹ ہاؤس کےلیے وی او اے کی بیورو چیف پیٹسی وڈاکوسوارا کے ساتھ اس بارے میں بات کی ہے، اور اسرائیل کو غزہ میں اس کی جنگ لڑنے کے لیے ہتھیار فراہم کرنے کے بارے میں ان کے سابق دفتر میں ذمہ دارانہ بحث کے نہ ہونے کو امریکی سٹریٹیجک مفادات اور اقدار کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔

پیٹسی وڈاکوسوارا کی جاش پال سے گفتگو کا متن نیچے پیش کیا جا رہا ہے ۔ واضح رہے کہ متن کو وضاحت اور اختصار کے نکتہ نظر سے ایڈٹ کیا گیا ہے۔

جاش پال کی وائس آف امریکہ سے گفتگو کا متن

وی او اے: آپ نے استعفیٰ کیوں دیا؟

پال: میں نے استعفیٰ اس لیے دیا کہ مجھے محسوس ہوا کہ ہم اسرائیل کو ہتھیاروں کی منتقلی سے متعلق بڑے پالیسی فیصلوں کے درمیان تھے لیکن انہیں اتنی توجہ نہیں دی جا رہی تھی، جو، عام طور پر انسانی حقوق سے متعلق خدشات یا، شہری ہلاکتوں کے خدشات اور تنازعات کے تناظر میں پیش نظر رکھی جاتی ہے، اور جتنی کہ غزہ میں جاری تنازعے کے تناظر میں درکار تھی۔

وی او اے: 7 اکتوبر کے بعد کیا ہوا؟

پال: حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کے فوراً بعد ، جو میں واضح کر دوں، قظعی طور پرایک ظلم تھا اور اس کی مذمت کی جانی چاہیے اور اسرائیل کو جواب دینے کا حق حاصل ہے ۔ ہمیں اسرائیل کی طرف سے متعدد قسم کی درخواستیں موصول ہونا شروع ہو گئیں۔بہت سے مختلف قسم کے گولہ بارودکے بارے میں۔

جب ہمیں پارٹنرز کی جانب سے ایسی درخواستیں موصول ہوتی ہیں، تو پالیسی کا ایک طریقہ کار ہو تا ہے جس میں ہم انسانی حقوق پر پارٹنر کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہیں، ہم سویلینز کے جانی نقصان کے خطرات سمیت دیگر عوامل کو دیکھتے ہیں۔

ہتھیاروں کی منتقلی کی ایک روایتی پالیسی ہے جو ان فیصلوں کی رہنمائی کرتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جب اسلحے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے استعمال کیے جانے کا خطرہ زیادہ ہو تو اس کی منتقلی نہیں کی جائے گی۔

غزہ میں جب اسرائیلی آپریشن بڑے پیمانے پر بمباری کے ساتھ شروع ہواتو ہم آغاز میں ہی سینکڑوں اور پھر ہزاروں فلسطینی شہریوں کو مرتے ہوئے دیکھ سکتے تھے۔

اور ابھی تک کوئی پالیسی بحث نہیں ہوئی تھی، یہ نہیں پوچھا جا رہا تھا کہ آیا ہم رک کر اپنی باقاعدہ پالیسیوں اور قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھنے جا رہے ہیں (یا نہیں)۔ ایسا تھا، کہ " ان ہتھیاروں کو جتنی جلدی ہو سکے اسرائیل کو بھیجیں، اور نتائج کی پروا نہ کی جائے"۔

وی او اے: کیایہ ایک واضح ہدایت تھی؟ محکمہ خارجہ میں آپ کے اعلیٰ افسران نے کہا تھا کہ ہمارے پاس بحث کا وقت نہیں ہے، ہم چاہتے ہیں کہ سب اس پر متفق ہوں؟

پال: یہ درست ہے۔

'غزہ پر متوازن کوریج کی ضرورت ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:04 0:00

وی او اے: جب آپ نے احتجاج کیا تو کیا کوئی وضاحت کی گئی تھی؟

پال: مجھے نہیں لگتا کہ وضاحت کی ضرورت تھی۔ انڈر اسٹینڈنگ یہ تھی کہ یہ اسرائیل ہے۔ یہ ایک اسپیشل کیس ہے۔ انتظامیہ اس معاملے سے ایسے ہی عہدہ برآ ہو رہی ہے۔ یہ نہ صرف محکمے کے اندر سے، بلکہ بیرونی طور پر بھی اسرائیل کےجوابی حملوں پروائٹ ہاؤس کی طرف سے اس کے فور ی ردعمل کی وجہ سے واضح تھا۔

وی او اے: آپ نے اس بیورو میں 11 سال کام کیا۔ کیا کوئی اور ایسی دوسری مثالیں ہیں جہاں بغیر بحث کے ہتھیار بھیجنے کا فیصلہ ہوا ہو؟

پال: نہیں، ہمیشہ بحث ہوتی رہی ہے۔ اور مجھے واضح کرنے دیں، میں فطری طور پر امریکی ہتھیاروں کی منتقلی کا مخالف نہیں ہوں۔ ایسی مثالیں ہیں جن میں وہ یوکرین میں، یورپ کے دوسرے اتحادیوں کی حمایت میں بہت مثبت کام کرتے ہیں۔ لیکن ان حالات میں بھی، ہمارے قریبی اتحادیوں تک کےلیے بھی، اگر تنازعہ کا کوئی شائبہ بھی ہوتا ہے، تو اس پر ہمیشہ بحث کی جاتی ہے۔

وی او اے: حماس کے اس حملے سے پہلے بھی ہم امریکہ اسرائیل کو سالانہ 3 ارب ڈالر سے 4 ارب ڈالر [فوجی امداد کی مد میں] بھیجتے تھے۔ کیا اس سے اسرائیلی سلامتی میں مدد ملی ہے؟ کیا اس سے علاقائی استحکام میں مدد ملی ہے؟

پال: مجھے نہیں لگتا کہ ایساہے۔ میں مکمل طور پر اسرائیلیوں کے لیے امن اور سلامتی کے ساتھ زندگی گزارنے کے حق میں ہوں، جیسا کہ میں فلسطینیوں کے لیے امن اور سلامتی کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے ہوں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے فرض کیا ہے کہ فلسطینی اسرائیل تنازعے کے کسی دیرپا سیاسی حل کی راہ میں رکاوٹ اسرائیلی سکیورٹی کا فقدان ہے، اور اگر اسرائیل خود کو زیادہ محفوظ محسوس کرتا ہے تو وہ، ایسی رعایتیں دے سکے گا جو اسے فلسطینی ریاست کی اجازت دینے کی ضرورت ہے۔

امریکی سیکیورٹی کی چھاؤں میں اور سوال نہ پوچھنے کے اقدام کی وجہ سے اسرائیل خود کو کچھ بھی کر گزرنے کے لیے ، (جیسے) غزہ کا محاصرہ جاری رکھنے ، مغربی کنارے میں بستیوں کو بڑھانے یا مغربی کنارے میں حفاظتی رکاوٹیں کھڑی کرنے کے حوالے سے خود کو آزاد سمجھتا ہے، ہمارے سیکیورٹی نظاموں نے طویل مدت کے دوران اسرائیل کو زیادہ محفوظ نہیں بنایا۔

امریکہ، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو اہمیت کیوں دیتا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:05 0:00

وی او اے: عرب دنیا اور گلوبل ساؤتھ میں بہت سے لوگ اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کو اس خیال کے حصے کے طور پر دیکھتے ہیں کہ امریکہ اپنی خارجہ پالیسی میں دوہرے معیارات کا اطلاق کرتا ہے۔ کیا آپ اس پر تبصرہ کرنا چاہیں گے؟

پال: یہ واقعی ایک اہم نکتہ ہے۔ (بائیڈن)انتظامیہ بجا طور پر عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ اسٹریٹجک مسابقت کو بین الاقوامی تعلقات کے سب سےاہم پہلوؤں کے طور پر دیکھتی ہے۔

اس تنازعہ میں، امریکہ کے پاس تین قسم کی برتری ہے، فوجی طاقت، اتحاد اور شراکت داری کا ہمارا عالمی نیٹ ورک، اور ہماری اقدار۔ اسرائیل کے بارے میں ہمارا موقف ہماری اقدار پر سوالات اٹھا کر اس اسٹریٹجک مقابلے کو نمایاں طور پر کمزور کر رہا ہے۔

امریکہ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے کس طرح مختلف ہو سکتاہے اگر وہ سیاسی طور پر(آسانی کے لیے) اپنی اقدار سے پہلوتہی کرنے کو تیار ہو؟ یہ نہ صرف اخلاقی طور پر نقصان دہ ہے، بلکہ میرے خیال میں اس سے ہمیں اسٹریٹجک نقصان بھی ہوتا ہے۔

وی او اے : انتظامیہ اب اسرائیل کی حمایت اور انسانی ہمدردی کے خدشات کے ساتھ ساتھ تنازعہ کو وسیع ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ صدر (بائیڈن)کے لیے یہ ایک توازن برقرار رکھنے کا دشوار عمل ہے۔ ان کے لئے آپ کا کیا پیغام ہے؟

پال: میں اس بات سے پوری طرح متفق ہوں کہ تنازعہ کو وسیع کرنا اس میں شامل ہر فریق کے لیے تباہی کا باعث بنے گا۔ مجھے خوشی ہے کہ انتظامیہ نے اس پر توجہ مرکوز کی ہے، اس میں مشرقی بحیرہ روم میں (امریکی)بحری بیڑے کی تعیناتی بھی شامل ہے۔ اس سے ایک مضبوط پیغام ملتا ہے۔

میرے خیال میں تنازعہ کو وسیع ہونے سے روکنے کا ایک حصہ غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنا بھی ہے۔ میرے خیال میں جتنے زیادہ فلسطینی شہری مارے جائیں گے، اتنا ہی دوسرے ممالک، خطے کے دیگر حصوں میں استحکام کے لیے مشکل ہو گا۔

لہٰذا، اگر ہم علاقائی استحکام چاہتے ہیں، اگر ہم نہیں چاہتے کہ یہ تنازعہ پھیلے، تو ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ یہ جلد از جلد ختم ہو جائے اور شہریوں کے پہنچنے والے جانی نقصان کے حوالے سے جتنا ہو سکے احتیاط سے کام لیا جائے۔

وی او اے: آپ غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں کے سبب عرب دنیا کی آبادی کی برہمی کا تعلق وسیع تر علاقائی عدم استحکام سے جوڑ رہے ہیں؟

پال: ہم نے پہلے ہی خطے میں امریکی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان اور اس سفارتی نقصان کے اثرات کا مشاہدہ کر لیا ہے ، جو اسرائیل کے ردعمل کی وجہ سے ہوا ہے۔ خطے اور پوری دنیا، دونوں کے لئے امریکہ کے سٹریٹیجک مفادات (پر عمل کرنے) کے کچھ نتائج ہوتے ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس کا ادراک ہونا چاہیے۔

میرا خیال ہے کہ امریکہ میں سیاسی سطح پر ، سول سروس اور امریکی آبادی کے ساتھ ربط کا فقدان ہے۔ مجھے امید ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر کوئی ایسی بڑی تبدیلی آسکتی ہے جو امریکی عوام اور (ان کی اپنے ملک کی) خارجہ پالیسی سے توقعات کے درمیان مطابقت پیدا کر سکتی ہو۔

(وائس آف امریکہ کی Patsy Widakuswara کی رپورٹ)

فورم

XS
SM
MD
LG