رسائی کے لنکس

بے روزگاری کی شرح میں کمی اوباما کے لیے خوش آئند


صدر اوباما
صدر اوباما

ماہرین کا خیال ہے کہ جمعے کے روز کے اس اعلان سے کہ امریکہ میں بے روزگاری کی شرح 9 فیصد سے کم ہو کر 8.6 فیصد ہو گئی ہے، اگلے سال صدر براک اوباما کے دو بارہ منتخب ہونے کے امکانات بہتر ہو جائیں گے، خاص طور سے اگر یہ رجحان جاری رہتا ہے

بے روزگاری کی شرح میں کمی، بہترین اقتصادی اور سیاسی خبر ہے جو وائٹ ہاؤس کو مہینوں بعد ملی ہے۔ واشنگٹن میں تقریر کرتے ہوئے، صدر اوباما نے، اس خبر کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ ’’صدر کی حیثیت سے، میرے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ میں اس معیشت کو زیادہ تیزی سے ترقی دینے اور روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کرنے کے لیے ہر روز وہ سب کچھ کروں جو میرے اختیار میں ہے۔‘‘

اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ بے روزگاری کی شرح میں کمی اچھی خبر ہے، لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس شرح میں کمی کی ایک وجہ یہ ہے کہ بہت سے امریکیوں نے روزگار کی تلاش ختم کر دی ہے۔ ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر، جان بوئہنر سمیت ریپبلیکنز کا رویہ اس خبر کے بارے میں محتاط تھا ۔ انھوں نے کہا کہ ’’روزگار کے مواقع پیدا ہونے کی ہر خبر کا خیر مقدم کیا جانا چاہیئے، لیکن ہمارے ملک میں بے روزگاری کی شرح اب بھی ناقابلِ قبول حد تک زیادہ ہے۔‘‘

سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ اگلے سال کے صدارتی انتخاب میں معیشت اور بے روزگاری کی شرح بنیادی مسائل ہوں گے۔ تجزیہ کار سٹارٹ رودنبرگ کہتے ہیں کہ اگر معیشت کمزور رہی، تو ووٹرز صدر اوباما کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔ ان کے مطابق ’’یا تو انہیں معیشت اور روزگار کی حالت، اور ملک میں مجموعی موڈ کو تبدیل کرنا ہوگا، جو بہت مشکل کام ہے ، یا انہیں انتخاب میں ایسی تبدیلی لانی ہوگی کہ یہ روزگار کے بارے میں نہ رہے بلکہ لوگ یہ سوچنے لگیں کہ کیا ریپبلیکنز پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ کیا ریپبلکنز کو منتخب کرنا خطرناک ہو گا؟ ۔ صرف اسی صورت میں ان کے دوبارہ منتخب ہونے کا امکان ہے۔‘‘

ریپبلیکن اُمیدواروں نے جو اگلے سال مسٹر اوباما کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے کے لیے نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، انتخابی مہم میں اپنی بیشتر تر توجہ صدر کے اقتصادی ریکارڈ پر مرکوز کی ہے۔ ان میں امریکی ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر نیوجنگرچ بھی شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اگر اوباما دوبارہ منتخب ہو جاتے ہیں، اور اگر وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ خراب معیشت کے باوجود، بجٹ میں خسارے کے باوجود،اور تمام دوسری چیزوں کے باوجود، ان کی انتہا پسندی صحیح ثابت ہوئی ہے، تو میں تصور بھی نہیں کر سکتا ء کہ ان کے عہدے کی دوسری مدت کے دوران کیا ہوگا ۔‘‘

فی الوقت ، رائے عامہ کے جائزوں میں، صدارت کے آٹھ ریپبلیکن اُمیدواروں میں جنگرچ اور ریاست میساچوسٹس کے گورنر مٹ رومنے سب سے آگے ہیں۔ رومنے نجی شعبے میں اپنے تجربے پر زور دیتے رہتے ہیں ۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’میں امریکی کاروباری اداروں کی مدد کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں تا کہ وہ ایک بار پھر کامیاب ہوں، ترقی کریں اور نئے لوگوں کو ملازمتیں دیں۔ میں کاروباری اداروں سے نفرت نہیں کرتا، میں انہیں پسند کرتا ہوں۔‘‘

ڈیموکریٹک پولیٹیکل اسٹریٹجسٹ ، اسٹیو مکماہون کہتے ہیں کہ بے روزگار ی کی شرح میں مسلسل کمی کے رجحان سے صدر کے دوبارہ منتخب ہونے کے امکانات بہتر ہو جائیں گے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’صدارتی انتخاب کی مہم میں جب معیشت کی بات ہو رہی ہو، تو اہم ترین چیز یہ ہے کہ کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ حالات بہتر ہو رہے ہیں، یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حالات ویسے ہی ہیں یا اور زیادہ خراب ہو رہے ہیں۔

مکماہون اور دوسرے ڈیموکریٹس کو امید ہے کہ سابق صدر رونلڈ ریگن کی مثال مسٹر اوباما پر صادق آ سکتی ہے ۔ بے روزگاری کی شرح 7.2 فیصد ہونے کے باوجود، ریگن 1984 میں دوبارہ صدر منتخب ہو گئے کیوں کہ ووٹروں کا خیال تھا کہ ملک صحیح سمت میں جا رہا ہے۔‘‘ دوسری طرف ، یہ بات بھی صحیح ہے کہ بے روزگاری کی سات فیصد سے زیادہ شرح سیاسی اعتبار سے تباہکن ثابت ہو سکتی ہے ۔ جیرالڈ فورڈ، جمی کارٹر اور جارج ایچ ڈبلو بش، یہ تینوں امریکی صدور دوبارہ منتخب نہ ہو سکے کیوں کہ ان کے دور میں بے روزگاری کی شرح 7.4 فیصد یا اس سے زیادہ تھی۔

XS
SM
MD
LG