رسائی کے لنکس

بلنکن کے دورۂ بھارت میں افغانستان اور چین مذاکرات کے مرکزی موضوع ہوں گے


امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن (فائل فوٹو)
امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن (فائل فوٹو)

ایسے وقت میں جب افغانستان کی صورت حال اور چین عالمی منظر نامے میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن اپنے دورہ بھارت میں واشنگٹن اور نئی دہلی میں اسٹریٹجک شراکت داری کا اعادہ کریں گے۔

دو روزہ دورے پر بلنکن منگل کو نئی دہلی پہنچیں گے۔ یہ ان کا بھارت کا پہلا دورہ ہوگا، جس دوران وہ بدھ کو اپنے بھارتی ہم منصب سبرامنیئم جے شنکر سے بات چیت اور وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کریں گے۔

بھارت کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کے اعلیٰ ترین سفارت کار اور بھارتی حکام کے درمیان مذاکرات خطے اور عالمی مسائل پر مرکوز ہوں گے جن میں انڈو پیسیفک خطے کی صورت حال، افغانستان اور کووڈ نائنٹین کی عالمی وبا شامل ہوں گے۔

بھارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب طالبان تیزی سے کئی افغان علاقوں کا کنٹرول سنبھال رہے ہیں افغانستان میں سلامتی کی صورت حال بھارت اور امریکہ دونوں کے لیے اہمیت کی حامل ہیں۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ بلنکن افغانستان میں استحکام قائم کرنے کے سلسلے میں بھارت کے کردار کی حوصلہ افزائی کریں گے۔

امریکہ کے وسط ایشیا اور جنوب ایشیا کے چوٹی کے عہدیدار ڈین تھامسن نے واشنگٹن میں رپورٹرز کو بتایا کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ خطے کے تمام ملک آنے والے دنوں میں ایک مستحکم اور محفوظ افغانستان کو اپنے مفاد میں جانیں گے۔ لہٰذا، ہم بھارتی حکام سے اس مقصد کے حصول کے لیے مل جل کر کام کرنے پر غور کریں گے۔

حالیہ ہفتوں میں بھارت نے افغانستان میں گزشتہ دو عشروں میں حاصل کی گئی پیش رفت کو قائم رکھنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق افغانستان کی صورت حال نئی دہلی کے لیے ایک تشویش ناک معاملہ ہے کیونکہ بھارت یہ سمجھتا ہے کہ طالبان کے واپس آنے سے افغانستان میں دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا پھر سے وجود میں آنے کا اندیشہ ہے اور یہ کہ اسلامی عسکریت پسند گروہ ان پناہ گاہوں کو استعمال کرکے بھارتی زیر انتظام کشمیر کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

نئی دہلی اوبزرور ریسرچ فاونڈیش نامی تحقیی ادارے میں اسٹریٹجک سٹڈیز پروگرام کے ڈائریکٹر ہارش پنت کہتے ہیں کہ بھارت یہ جاننا چاہے گا کہ امریکہ اپنی فوجوں کے انخلا کے بعد کس قسم کا کردار ادا کرے گا اور یہ کہ بھارت اور امریکہ کس طرح مشترکہ طور پر تعاون کے ذریعے افغانستان کی اس مشکل گھڑی میں مدد کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت اس سلسلے میں واضح طور پر معلوم کرنا چاہے گا کہ امریکہ آئندہ کیا لائحہ عمل اپنائے گا۔

بھارت کی وزارت خارجہ نے سیکرٹری بلنکن کے دورے کو دونوں ملکوں کی گلوبل اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو مضبوط بنانے کا ایک موقع قرار دیا ہے۔

بلنکن کے دورے سے کچھ ماہ قبل وزیر دفاع آسٹن لائیڈ نے نئی دہلی کا دورہ کیا تھا۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک وزیر دفاع کا دورہ اس پیغام کا اظہار تھا کہ ایسے وقت میں جب بھارت اور امریکہ دونوں کو ابھرتے ہوئے چین پر تشویش ہے امریکہ اور بھارت کے تعلقات صدر جو بائیڈن کے دور میں آگے بڑھتے رہیں گے۔

وزیر خارجہ کا دورہ رواں برس ہونے والے چار ملکوں کے اجلاس کے لیے تیاری کرنے میں بھی مدد گار ہو گا۔ خیال رہے کہ 'کواڈ گروپ' میں امریکہ، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں۔ غیر رسمی طور پر اس اسٹریٹجیک گروپ کو2017ء میں چین کے انڈو پیسیفک خطے میں قدم جمانے کے تناظر میں بحال کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل اس سال صدر بائیڈن نے چار ملکوں کے اس گروپ کے آن لائن اجلاس کی میزبانی کی تھی جس میں کرونا کی عالمی وبا سے نمٹنے پر زور دیا گیا تھا۔ لیکن آئندہ ہونے والے روبرو اجلاس میں توقع کی جار ہی ہے کہ ان ملکوں کے رہنما چین کے 'بیلٹ اینڈ روڈ' پروگرام کے تحت انفراسٹرکچر پراجیکٹ کے مقابلے میں ترقی پذیر ممالک کو ان کے نعم البدل پراجیکٹس پیش کرنے پر غور کریں گے۔

بھارتی ماہر پنت کہتے ہیں کہ شروع میں نئی دہلی کو تحفظات تھے آیا بائیڈن انتظامیہ چین کے خلاف امریکہ کی سخت پالیسی پر کاربند رہے گی، لیکن اب یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ امریکہ اور چین کے تعلقات مشکل تر ہوتے جارہے ہیں اور اس ضمن میں بھارت کا کردار بہت اہم رہے گا۔

امریکی حکام نے کہا ہے کہ وزیر خارجہ بلنکن اپنے دورے میں بھارت میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے حوالے سے مسائل کو بھی اٹھائیں گے۔
دوسری طرف نئی دہلی کا کہنا ہے کہ وہ اس تناظر میں اپنے ریکارڈ کے دفاع کی تیاری میں مصروف ہے۔

ناقدین بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت پر الزام عائد کرتے ہیں کہ اس نے مخالف آرا کو دبانے اور مسلمانوں کے خلاف شہریت کا امتیازی قانون بنانے جیسی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں؛ جبکہ بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ شہریت کا قانون امتیازی نہیں ہے اور یہ کہ اس کے خلاف لگائے گئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات درست نہیں ہیں۔

XS
SM
MD
LG