رسائی کے لنکس

جیسن کی وطن واپسی، خیر مقدم کرنے والوں میں کیری شامل


فائل
فائل

کیری نے کہا ہے کہ ’’کوئی بھی حکومت اپنے آپ کو اُس وقت تک عظیم نہیں کہہ سکتی، جب تک وہ آزادی ِاظہار کی اجازت نہیں دیتی۔ جس ملک میں آزاد صحافت موجود نہیں، وہ صرف زبانی کلامی حد تک آزادی کی دعوے دار ہو سکتا ہے‘‘

’واشنگٹن پوسٹ‘ کے نمائندے، جیسن رضائیاں 545 دِنوں تک ایران میں قید رہنے کے بعد جمعرات کو وطن واپس پہنچے، جہاں اخبار کے نمائندوں اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اُن کا استقبال کیا۔

وہ تہران میں اخبار کے بیورو چیف تھے۔اُنھوں نے واشنگٹن میں اخبار کے صدر دفتر میں، جو کے وائٹ ہاؤس سے زیادہ دور نہیں، خیر مقدم کرنے والے ساتھیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’میں گھر واپس آکر بہت خوش ہوں‘‘۔

اپنے مختصر کلمات میں، 39 برس کے رضائیاں نے کہا کہ میں بہت مشکور ہوں کے اتنے سارے افراد اکٹھے ہوئے، جن میں امریکی حکومت کے اہل کار، صحافی، رشتہ دار اور احباب شامل ہیں، جنھوں نے ایران سے میری رہائی کے لیے طویل عرصے تک جہدوجہد کی۔

ایک ایرانی عدالت نے جاسوسی کے الزام پر اُنھیں سزا سنائی تھی، لیکن اِن الزامات کی نوعیت نہیں ظاہر کی گئی، ناہی اُن کو دی جانے والی سزا کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔

کئی ماہ تک، اُن کے اخبار اور حکومتِ امریکہ نے اُن کی حراست کے خلاف احتجاج جاری رکھا۔ تاہم، اُنھیں 16 جنوری تک رہا نہیں کیا گیا، جس دِن امریکہ اور پانچ دیگر عالمی طاقتوں نے تہران کے ساتھ ہونے والے جوہری سمجھوتے پر عمل درآمد کی مناسبت سےقیدیوں کا تبادلہ کیا؛ جس سمجھوتے کے تحت، ایران کو اپنی جوہری صلاحیت کی سطح گھٹانی تھی جس کے عوض ایران کے خلاف اقتصادی تعزیرات اٹھائی گئیں۔

اُسی وقت چار دیگر امریکی بھی رہا ہوئے، جب کہ امریکہ نے سات ایرانیوں کو رہائی دی، جن کے خلاف عائد تعزیرات کی خلاف ورزی اور تجارت کا الزام ثابت ہوا تھا۔

جذبات سے مغلوب، کیری نے کہا کہ ’’جیسن کا واپس گھر لوٹنا خصوصی طور پر سبھی کے لیے خوشی کا باعث ہے، چونکہ، اُن کے قید کے حوالے سے نتائج سے مانوس تھے، اس لیے ہم پریشان تھے‘‘۔

فوج میں اپنی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے، اعلیٰ ترین امریکی سفارت کار نے کہا کہ رضائیاں کی آزادی اُس عہد کی پاسداری ہے جس میں کسی بھی ساتھی کو پیچھے نہیں چھوڑا جاتا۔

اخبار نے سرکاری طور پر نئی عمارت کو جیسن کے نام سے منسوب کیا، جس پر کیری نے جمہوری ملکوں میں میڈیا کے آزادانہ اور غیرجانبدارانہ کردار پر روشنی ڈالی۔

کیری نے کہا کہ گذشتہ سال آمرانہ حکومتوں نے اپنی پیشہ ورانہ خدمات کی انجام دہی پر 71 سے زائد صحافی ہلاک ہوئے، جب کہ 200 سے زائد کو قید کیا گیا۔
کیری نے کہا کہ ’’کوئی بھی حکومت اپنے آپ کو اُس وقت تک عظیم نہیں کہہ سکتی، جب تک وہ آزادی ِاظہار کی اجازت نہیں دیتی۔ جس ملک میں آزاد صحافت موجود نہیں، وہ صرف زبانی کلامی حد تک آزادی کی دعوے دار ہو سکتا ہے‘‘۔

XS
SM
MD
LG