رسائی کے لنکس

ایران کا جوہری پروگرام اور امریکی تشویش


امریکہ اس کشمکش میں گرفتار ہے کہ ایران کے ساتھ کیسے نمٹا جائے خاص طور سے اس کے نیوکلیر اسلحہ تیار کرنے کے عزم کے سلسلے میں کیا کیا جائے۔ یہ چیلنج اس لیے اور بھی مشکل ہے کیوں کہ ایران کی صلاحیتوں اور اس کے عزائم کے بارے میں ٹھوس انٹیلی جنس دستیاب نہیں ہے ۔

2007کے آخر میں امریکی انٹیلی جنس کے عہدے داروں نے ایک نیشنل انٹیلی جنس ایسٹیمیٹ تیار کیا جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ ایران نے اپنے نیوکلیئر اسلحہ کی تیاری کے پروگرام پر 2003 میں کام روک دیا تھا اور اس رپورٹ کی تحریر کے وقت تک اس نےاس سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا تھا۔

پچھلی فروری تک نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ڈینس بلیئر نے یہ بات دہرائی کہ تہران کے نیوکلیئر عزائم ا ب بھی واضح نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا’’ہمیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ ایران بالآخر نیوکلیئر اسلحہ کی تیاری کا فیصلہ کر ے گا یا نہیں۔ ہم اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ایران اس قسم کا فیصلہ کرتے وقت یہ دیکھے گا کہ اس کام پر لاگت کتنی آئے گی اور فائد ہ کتنا ہوگا۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی صورت میں بین الاقوامی برادری کو یہ مواقع ملتے ہیں کہ وہ ایران کے فیصلہ کرنے کے عمل پر اثر انداز ہو سکے۔‘‘

انٹیلی جنس کے افسر کہتے ہیں کہ یہ پتہ چلانا کہ کسی ملک کی صلاحیتیں کتنی ہیں اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ آسان ہے کہ اس بات کا اندازہ لگایاجائے کہ وہ ملک ان صلاحیتوں کو کس طرح استعمال کرے گا۔نیشنل انٹیلی جنسی ایسٹیمیٹ یاN.I.E. ملک کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کا مجموعی انداز ہ ہوتا ہے ۔ 2007 کے NIE کے بعدایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا خاص طور سے ان لوگوں کی طرف سے جو ایران کے خلاف زیادہ سخت رویہ اختیار کرنا چاہتے تھے۔

ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے ایک اجلاس میں ایوانِ نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے عملے کے ایک ریپبلیکن رکن فریڈرک فلٹز نے اصرار کیا کہ N.I.E. کی رپورٹ سر ا سر غلط تھی۔ انہوں نے کہا’’مجھے یقین نہیں کہ ایران نے اپنا پروگرام کسی لمبے عرصے کے لیے معطل کیا تھا اور اگر واقعی ایسا ہوا تھا تو بھی انٹیلی جنس کمیونٹی کو کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنا چاہیئے ۔2007 میں انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ اگر اب بھی ان کا موقف یہی ہے تو انہیں پالیسی سازوں اور کانگریس کے ارکان کو قائل کرنے کے لیے سخت محنت کرنا ہوگی کہ واقعی ایران نے اپنا پروگرام روک دیا تھا۔‘‘

ایران کے بارے میں نیا نیشنل انٹیلی جنس ایسٹیمیٹ تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ اس کے مندرجات خفیہ ہیں۔ لیکن انٹیلی جنس کے عہدے داروں نے صاف طور پر کہا ہے کہ ایران کے پاس ایک سال کے اندر ایک بم بنانے کے لیے کافی افژودہ شدہ یورینیم موجود ہوگا لیکن ایسا ہتھیار بنانے میں جو قابلِ استعمال ہو اور جسے ہدف پر پہنچایا جا سکے دو سے پانچ برس لگ جائیں گے۔

سکیورٹی اور ملٹری انٹیلی جنس کے تجزیہ کار Tate Nurkin کہتے ہیں کہ نئے NIE میں کچھ نئے نتائج اخذ کیے جائیں گے۔ ’’میرے خیال میں ایران کی صلاحیتوں کے بارے میں نئے اندازے کا لب و لہجہ زیادہ جارحانہ ہوگا اور اس میں کہا جائے گا کہ ایرانی 2007 کے مقابلے میں نیوکلیئر شعبے میں اپنا مقصد حاصل کرنے کے زیادہ نزدیک پہنچ گئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ دو برسوں میں بہت کچھ ہو چکا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ پچھلے اندازے میں زیادہ نرم لہجہ اختیار کیا گیا تھا۔‘‘

کسی ملک کے لیے یہ ممکن ہے کہ اس کے پاس نیوکلیئر صلاحیت تو موجود ہو لیکن کوئی نیوکلیئر بم موجود نہ ہو۔1985 میں امریکہ نے پاکستان کو دھمکی دی کہ اگر صدرِ امریکہ نے تصدیق کی کہ پاکستان کے پاس نیوکلیئر ہتھیار ہیں تو اس کی امداد بند کر دی جائے گی۔ پاکستان نے بار بار یہی کہا کہ اس کے پاس کوئی نیوکلیئر ہتھیار نہیں ہیں اور تکنیکی اعتبار سے اس کا کہنا صحیح تھا۔ پاکستان نے کیا یہ تھا کہ بم کے تمام اجزاء تیار کرکے ایک طرف رکھ دیے تھے اور اس نے 1998 سے پہلے نیوکلیئر ہتھیار ٹیسٹ نہیں کیا۔نورکن کہتے ہیں کہ ایران بھی پاکستان کی تقلید کر سکتا ہے کہ وہ نیوکلیئر اسلحہ تیار کرنے کے قابل تو بن جائے لیکن خود کو نیوکلیئر اسلحہ سے لیس نہ کرے۔یعنی وہ تمام ضروری ٹیکنالوجی حاصل کرلے لیکن دو ، تین یا چھ مہینے کی کسر چھوڑ دے ۔

ایوانِ نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے فریڈرک فلٹز کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس کمیونٹی کو اعتراف کر لینا چاہیئے کہ 2007 میں اس سے غلطی ہوئی تھی اور کُھل کر کہنا چاہیئے کہ ایران نیوکلیئر اسلحہ کی تیار ی کی راہ پر گامزن ہے ۔ تا ہم وہ کہتے ہیں کہ شاید ایسا نہیں ہوگا۔

ایران کا اصرار ہے کہ وہ غیر فوجی نیوکلیئر ریسرچ میں مصروف ہے ۔ اوباما انتظامیہ کوشش کر رہی ہے کہ ایران کو اپنا نیوکلیئر پروگرام ختم کرنے پر مجبور کرنے کے لیے اور زیادہ سخت پابندیاں عائد کرے اور اس کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرے ۔لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ اگر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں مزید پابندیوں پر اتفاقِ رائے حاصل نہ ہو سکا تو پھر کیا ہوگا۔

امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ فوجی کارروائی سمیت ہر قسم کے اقدامات کے لیے تیار ہیں۔ لیکن وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کے ایک میمورنڈم میں ،جس کے مندرجات اخبار نیو یارک ٹائمز کو افشا کر دیے گئے ، کہا گیا ہے کہ ایران سے نمٹنے کے لیے امریکہ کے پاس طویل مدت کی کوئی حکمت عملی موجود نہیں ہے اور نہ ہی یہ بات واضح ہے کہ اگر ایران نے نیوکلیئر اسلحہ تیار نہ کیا لیکن اس کی صلاحیت حاصل کر لی تو پھر ایران کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG