رسائی کے لنکس

کواڈ اجلاس: کیا امریکہ چین کی سرگرمیوں پر قابو پانا چاہتا ہے؟


دو گھنٹے تک جاری اجلاس کے بعد کسی عوامی بیان یا مشترکہ اعلامیہ میں گو کہ چین کا نام نہیں لیا گیا۔
دو گھنٹے تک جاری اجلاس کے بعد کسی عوامی بیان یا مشترکہ اعلامیہ میں گو کہ چین کا نام نہیں لیا گیا۔

صدر جو بائیڈن کی دعوت پر وائٹ ہاؤس میں منعقد ہونے والے چار ممالک امریکہ، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل گروپ 'کواڈ' کے اجلاس میں کھلے اور جبر سے آزاد انڈو پیسفک خطے کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔

اس موقعے پر جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں چاروں ممالک کے رہنماؤں نے کہا کہ ہم قانون کی حکمرانی، آزادانہ جہاز بحری و فضائی سفر، تنازعات کے پر امن حل، جمہوری اقدار اور ریاستوں کی علاقائی سالمیت کے حق میں ہیں۔

دو گھنٹے تک جاری اجلاس کے بعد کسی عوامی بیان یا مشترکہ اعلامیہ میں گو کہ چین کا نام نہیں لیا گیا لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ ان عالمی رہنماؤں کی باہمی گفتگو میں چین زیرِ بحث ضرور آیا ہوگا۔

گروپ کے اجلاس سے ایک روز قبل چین نے کواڈ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس گروپ کو کسی کی حمایت نہیں ملے گی اور ناکامی اس کا مقدر ہے۔

مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اجلاس میں شریک رہنماؤں جو بائیڈن، نریندر مودی، اسکاٹ موریسن اور یوشی ہائیڈ نے خطے میں چین کی بڑھتی سرگرمیوں اور اس کے بڑھتے اثرات پر تشویش ہے۔

کواڈ رہنماوں نے چھوٹے بالخصوص بحر الکاہل کے اندر آنے والے جزائر میں آب و ہوا کی تبدیلی اور دیگر معاملات میں مدد کا بھی اعلان کیا۔

انھوں نے عالمی سطح پر کرونا ویکسین کی فراہمی میں تعاون دینے کا اعلان کیا اور بھارت کی جانب سے رواں سال اکتوبر سے ویکسین کی برآمد کے اعلان کا خیرمقدم کیا گیا۔

امریکی صدر نے اجلاس کے دوران سب سے پہلے نریندر مودی کو خطاب کرنے کی دعوت دی۔

مودی نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ کواڈ گروپ دنیا کے لیے ایک اچھا کردار ادا کرے گا۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ چار ملکوں کا یہ گروپ انڈو پیسفک میں امن و خوش حالی کو یقینی بنائے گا۔

جو بائیڈن نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ یہ چاروں جمہوریتیں کرونا اور آب و ہوا میں تبدیلی کے مشترکہ چیلنج پر قابو پانے کے لیے ایک ساتھ آئی ہیں۔ مستقبل کے لیے اس گروپ کے پاس مشترکہ تصور ہے۔

اجلاس کے بعد جاپان کے وزیر اعظم نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چاروں ملک ویکسین کے سلسلے میں تعاون، شفاف توانائی اور خلا کے امور میں تعاون پر رضامند ہیں اور اس گروپ کا ہر سال اجلاس ہوگا۔

مبصرین کا خیال ہے کہ بحرالکاہل خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں ان چاروں ملکوں کے لیے باعث تشویش ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں کواڈ گروپ کے اجلاس کا منعقد ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ چین کی بڑھتی سرگرمیوں پر قابو پانا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ باقی تین ملکوں سے تعاون کا طلب گار ہے۔

ان کے مطابق اجلاس کے دوران چین کی جانب سے کواڈ پر تنقید کا معاملہ بھی زیر بحث آیا ہوگا۔

چین نے اجلاس سے قبل کہا تھا کہ اس مخصوص ممالک کے گروپ کا قیام وقت کے دھارے کے منافی ہے۔

چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے جمعے کو بیجنگ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چین ایسا سمجھتا ہے کہ کسی بھی علاقائی گروپ کو کسی تیسرے فریق کو ہدف نہیں بنانا چاہیے اور نہ ہی اسے نقصان پہنچانا چاہیے۔

انھوں نے جنوبی بحیرہٴ چین میں چین کے دعوے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ چین عالمی امن قائم کرنے، عالمی ترقی میں تعاون دینے اور عالمی نظام کو بحال رکھنے والا ملک ہے۔

بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار مفیض جیلانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ چین کو یہ اندیشہ ہے کہ کواڈ گروپ کا قیام اس کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا ہے اور اس کا یہ اندیشہ بہت حد تک درست بھی ہے۔

ان کے مطابق عالمی سطح پر چین کی تجارت میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے جس سے ان ملکوں کو خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ کواڈ کی سرگرمیوں میں صرف چین کی وجہ سے اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ پاکستان، چین، روس اور ترکی پر مشتمل جو ایک نیا گروپ تیار ہو رہا ہے اس کی وجہ سے بھی کواڈ ممالک زیادہ سرگرم ہو گئے ہیں۔

ان کے مطابق کواڈ گروپ کی یہ سرگرمی مذکورہ مجوزہ گروپ کا مقابلہ کرنے اور چین کی کوششوں کو روکنے کے لیے بھی ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ چین کا یہ خیال درست ہے کہ کواڈ اس کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے گروپوں کی سرگرمیاں اپنی جگہ پر لیکن ہر ملک کو اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ بہتر رشتے قائم کرنا چاہئیں۔ اگر پڑوسیوں سے تعلقات اچھے نہیں ہیں اور دور جا کر اس قسم کے گروپوں میں کوئی ملک شامل ہوتا ہے تو ان حالات میں کوئی بھی گروپ کامیاب نہیں ہو سکتا۔

انھوں نے بھارت کے حوالے سے کہا کہ اسے چاہیے کہ وہ کواڈ جیسے گروپوں پر بہت زیادہ انحصار کرنے کے بجائے ہمسایہ ملکوں جیسے کہ چین، پاکستان، نیپال اور بنگلہ دیش، وغیرہ سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کرے۔

ان کے خیال میں بھارت ان ملکوں اور خاص طور پر چین کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعات کو حل کرنے کے بجائے کواڈ جیسے گروپ سے زیادہ امید لگائے بیٹھا ہے۔ بھارت چین رشتے اگر خوش گوار ہوں گے تو بھارت کو چین کے توسط سے پاکستان سے بھی اپنے رشتوں کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔

مفیض جیلانی نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کے موجودہ حالات کی وجہ سے بھی خطے میں چین کے اثرات بڑھے ہیں۔ وہ کھل کر افغانستان کی مدد کر رہا ہے اور عالمی برادری سے مدد کی اپیل بھی کر رہا ہے۔

ان کے مطابق امریکہ کو ابھی تک یہ امید تھی کہ وہ افغانستان اور پاکستان کی مدد سے چین کی سرگرمیوں کو روک سکتا ہے لیکن اب جو بدلے ہوئے حالات ہیں ان کے پیش نظر افغانستان، امریکہ پر بہت زیادہ اعتماد نہیں کر سکتا۔

ان کے خیال میں امریکہ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھارت اور چین کی کشیدگی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اسی لیے وہ کواڈ گروپ میں بھارت کو بہت زیادہ اہمیت دے رہا ہے

ان کے مطابق افعانستان میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات سے امریکہ اور بھارت دونوں تشویش میں مبتلا ہیں اور اس صورت حال کو اپنے لیے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ نئی صورت حال میں ایران بھی بھارت سے دور ہونے لگا ہے۔ طالبان کی آمد کے بعد سے افغانستان بھی دور ہو گیا ہے۔ پاکستان سے ویسے ہی رشتے کشیدہ رہتے ہیں۔ ان حالات میں شاید بھارت کو یہ لگتا ہے کہ کواڈ جیسے گروپ کے توسط سے اس کے مفادات کا تحفظ ہو سکے گا۔

ایک اور تجزیہ کار رہیس سنگھ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کواڈ کے اجلاس میں آب و ہوا کی تبدیلی اور کرونا وبا کے سلسلے میں کافی تبادلہ خیال ہوا اور انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ کرونا ویکسین کو عالمی سطح پر فراہم کیے جانے کی ضرورت ہے۔

لیکن ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ اجلاس میں چین کا تذکرہ نہ آیا ہو۔ چین پر بالکل بات ہوئی ہوگی۔ کیوں کہ انڈو پیسفک میں چین کے بڑھتے اثرات سے چاروں ملک تشویش میں مبتلا ہیں اور چین کی بڑھتی سرگرمی کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت عالمی نظام میں تبدیلی آ رہی ہے۔ ابھی ایک ہفتہ قبل ہی امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا پر مشتمل ایک نیا گروپ ”آوکوس“ قائم ہوا ہے جس میں ہونے والے سیکیورٹی معاہدے کے تحت امریکہ، آسٹریلیا کو جوہری ہتھیاروں سے لیس آبدوز فراہم کرے گا۔ چین نے اس گروپ کے قیام کی مذمت کی ہے۔

ان کے مطابق چین کو صرف کواڈ کے ذریعے ہی گھیرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے بلکہ اس نئے گروپ آوکوس کے قیام کا ایک مقصد چین کو روکنا بھی ہے۔ ان حالات میں کواڈ اجلاس جہاں بھارت اور دوسرے ارکان کے لیے اہم ہے، وہیں چین کے لیے فکر مندی کا سبب ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بھارت کو اپنے مفادات کے تحفظ کی فکر ہے۔ انڈو پیسفک میں چین کی سرگرمیاں اس کے لیے خطرہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے کواڈ کے اس اجلاس کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور نئی دہلی کے تجزیہ کار بھی اس پر نظر رکھے ہوئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ اس سے قبل 12 مارچ کو کواڈ کا ورچوئل اجلاس منعقد ہوا تھا اور اب بالمشافہ ہوا ہے۔ تاہم دونوں کی اہمیت میں فرق ہے۔ جمعے کو ہونے والا اجلاس افغانستان کی تازہ صورت حال کی وجہ سے بہت اہم ہو گیا۔

ان کے مطابق اس کے علاوہ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کو ملا کر ”آوکوس“ نامی ایک گروپ قائم ہوا ہے۔ حالانکہ بھارت نے کہا ہے کہ یہ گروپ کواڈ کو متاثر نہیں کرے گا لیکن اس کا قیام بھی بدلتے ہوئے عالمی نظام کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان حالات میں بھارت بہت محتاط ہو کر قدم اٹھا رہا ہے۔ دراصل اس کو اپنے مفادات کے تحفظ کی فکر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی کواڈ اجلاس کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔

ان کے مطابق بھارت کے تجزیہ کار اس بات پر اختلاف رائے رکھتے ہیں کہ ”آوکوس“ کا کواڈ پر اثر پڑے گا یا نہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے کواڈ کی سرگرمی متاثر ہوگی جب کہ بعض دوسرے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس سے کواڈ اور مضبوط ہوگا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG