اسرائیل منگل کے روز وائٹ ہاؤس میں صدر براک اوباما وزیر اعظم نتن یاہو کے درمیان ہونے والی ملاقات کے لیے اپنی حکمت عملی طے کررہاہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو نے کہا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے مجوزہ مذاکرات فلسطینیوں کے ساتھ امن بات چیت کو آگے بڑھانے پر مرکوز ہوں گے۔
ان کا کہناتھا کہ امریکی ثالشی میں دوماہ تک بالواسطہ مذاکرات کے بعد انہوں نے اپنی کابینہ کو بتایا ہے کہ اب بالمشافہ مذاکرات کے آغاز کا وقت آگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امن کے حصول کا واحد ذریعہ براہ راست مذاکرات ہیں اور انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ واشنگٹن کا ان کا دورہ اس حوالے سے فائدہ مند ثابت ہوگا۔
فلسطینی ،مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں میں توسیع کے خلاف احتجاجاً اسرائیل سے براہ راست مذاکرات سے احتراز کررہے ہیں۔اسرائیل بالواسطہ مذاکرات کے لیےفلسطینیوں کے مطالبے پر جزوی طور پر عمل کرتے ہوئے مغربی کنارے میں بستیوں کی تعمیر پرکچھ پابندیاں پہلے ہی لگاچکاہے۔
تاہم 10 مہینوں کے لیے عائد کی جانے والی پابندی ستمبر میں ختم ہورہی ہے اور وائٹ ہاؤس میں دونوں ملکوں کے سربراہوں کی ملاقات میں یہ توقع کی جارہی ہے کہ صدر براک اوباما اس پابندی میں توسیع کی اپیل کریں گے، کیونکہ امریکہ بستیوں کی تعمیر کو امن کی راہ میں ایک رکاوٹ کے طورپر دیکھتا ہے۔
اور اسی طرح مسٹر نتن یاہو کے لیے مشکل یہ ہے کہ آیا وہ امریکہ کو اطمینان دلائیں یا اپنے دائیں بازو کے اتحادیوں کو مطمئن کریں ، جو ان پر امریکی دباؤ مسترد کرنے کے لیے زور دے رہے ہیں۔
اسرائیلی کابینہ کے ایک وزیر ڈینیئل ہیرش کووٹز کا کہنا ہے کہ تعمیرات پر پابندی لازمی طورپر ختم ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھاکہ بستیوں کو لازمی طورپرپھلنے پھولنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی مقدس سرزمین کو ترقی دینا بہت ضروری ہے۔
مسٹر نتن یاہو کے لیے ان مطالبات کو پورا کرنا دشوار ہوگا کیونکہ بستیوں کی تعمیر کے مسئلے نے امریکہ اسرائیل تعلقات میں شدید بحران پیدا کردیا ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم یہ توقع کررہے ہیں کہ وائٹ ہاؤس کے ان کے دورے سے تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے گی۔