رسائی کے لنکس

اوباما، نیتن یاہو ملاقات کے دو طرفہ تعلقات پراثرات


واشنگٹن میں اپنی حالیہ میٹنگ کے دوران امریکہ کے صدر براک اوباما اور اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے فلسطینیوں کے ساتھ امن کے عمل سے لے کر ایران کے نیوکلیئر پروگرام تک بہت سے مشکل مسائل پر بات چیت کی۔ بہت سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان مذاکرات کااہم ترین نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان دونوں لیڈروں کے درمیان کشیدہ تعلقات میں بظاہر نمایاں بہتری آئی ہے ۔

وائیٹ ہاؤس کے اوول آفس میں وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی آمد مسکراہٹوں اور گرمجوشی سے بھر پور تھی۔ بہت سے مسائل پر شدید اختلافات کی وجہ سے تعلقات میں جو کشیدگی پیدا ہو گئی تھی، اس کے مقابلے میں اس دورے کا لب و لہجہ بہت مثبت اور خوشگوار تھا۔

واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر، رابرٹ ساٹلوف کہتے ہیں کہ ’’ایسا نہیں تھا کہ اس ملاقات میں کوئی اہم لفظ یا جملہ ادا کیا گیا ہو لیکن صدر اوباما کی طرف سے واضح طور پر یہ کوشش کی گئی کہ اس تعلق کا ماحول خوشگوار ہو جائے۔ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی اور بحران کا تاثر ختم ہو اور اس کی جگہ خیر سگالی کا احساس پیدا ہو‘‘۔

اگرچہ وائیٹ ہاؤس میں ایک ہی میٹنگ کے نتیجے میں 18 مہینے کے پالیسی کے اہم اختلافات دور ہونا تو ممکن نہیں ہے، لیکن مسٹر اوباما نے امریکہ اور اسرائیل کے درمیان پائیدار اور مضبوط تعلق پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان جو رشتہ قائم ہے وہ نا قابل تنسیخ ہے۔

اس رشتے میں شدید کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب اسرائیل نے اس سال کے شروع میں، جب امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن اسرائیل کے دورے پر تھے، مشرقی یروشلم میں جہاں بیشتر عرب رہتے ہیں، یہودی بستیوں میں توسیع کا اعلان کیا۔ موڈ میں اتنی زیادہ تلخی پیدا ہوگئی تھی کہ جب مارچ میں آخری بار مسٹر نیتن یاہو وہائٹ ہاؤس گئے تو فوٹوگرافروں کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ صدر اوباما ،وزیر اعظم کو اکیلا چھوڑ کر ایک گھنٹے سے زیادہ کے لیے اپنی رہائش گاہ میں اوپر چلے گئے جس سے عام طور پر یہ مطلب لیا گیا کہ اس سے ان کی تحقیر کا تاثر پیدا ہوا۔

صدر اوباما اور وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے درمیان ایک اور میٹنگ اس وقت ملتوی ہو گئی جب فلسطینیوں کے لیے امدادی بحری بیٹرے پر اسرائیلی کمانڈوز کے حملے میں فلسطینیوں کے حامی نو افراد ہلاک ہو گئے۔ تاہم اس واقعے سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ہونے والے بالواسطہ مذاکرات منقطع نہیں ہوئے۔امریکہ کے خصوصی مندوب جارچ مچل نے براہ راست مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کے طور پر، اپنی شٹل ڈپلومیسی جاری رکھی ہے ۔

حدرسسکائنڈ اسرائیل کے لیے لابی کرنے والی تنظیم جے اسٹریٹ کے نائب صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’سب کا مقصد یہی ہے کہ مذاکرات براہ راست ہوں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیئے کہ اسرائیلی اور فلسطینی دونوں یہ سمجھ لیں کہ ا ن کی بات چیت کی حدود کیا ہوں گی، وہ کن چیزوں پر بات کریں گے، اس کے لیئے وقت کی حد کیا ہوگی، اور طریقہ کار کے بارے میں امریکہ کی توقعات کیا ہیں‘‘۔

مسٹرنیتن یاہو نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اگلے چند ہفتوں میں امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے۔ صدر اوباما نے اسرائیل کے اس موقف کی تائید کی ہے کہ ستمبر کے آخر میں یہودی بستیوں کی تعمیر پر پابندی کی مدت ختم ہونے سے پہلے براہ راست مذاکرات دوبارہ شروع کر دیے جائیں۔ ایک بار پھر مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار رابرٹ ساٹلوف کےمطابق ’’اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ اسرائیلی حکومت امن کے عمل میں پیش رفت کے بغیر ، فلسطینیوں کی طرف سے براہ راست مذاکرات پر رضامندی کے بغیر، بستیوں کی تعمیر پرپابندی میں توسیع کرے گی‘‘۔

مسٹر اوباما اور مسٹر نیتن یاہو دونوں اس تشویش کی بنا پر کہ ایران نیوکلیئر اسلحہ حاصل کرنے کے پروگرام پر عمل کر رہا ہے، اس کے خلاف سخت پابندیوں کے حامی ہیں۔ ایران نے انکار کیا ہے کہ وہ نیوکلیئر اسلحہ تیار کر رہا ہے ۔

اسرائیل کی یہودی مملکت کو مزید اطمینان دلانے کے لیے صدر اوباما نے کہا ہے کہ اسرائیل کے غیر اعلان شدہ نیوکلیئر اسلحہ کے پروگرام کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انھوں نےکہا کہ ’’ہم پوری شدت سے یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کا سائز، اس کی تاریخ، وہ جس علاقے میں واقع ہے اور اسے جو خطرات درپیش ہیں، ان کی روشنی میں اسرائیل کی سلامتی کی منفرد ضروریات ہیں‘‘۔

اسرائیل کے بارے میں مسٹر اوباما کے عام رویے میں جو نرمی آئی ہے، اس کی داخلی سیاسی وجوہات بھی ہیں۔ نومبر کے وسط مدتی انتخابات سے قبل، حزب اختلاف کے ریپبلیکن امید وار، یہودی ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ان ووٹروں کو، جو عام طور سے ڈیموکریٹس کی حمایت کرتے ہیں، یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ صدر اسرائیل کے مخالف ہیں۔ انتخابات سے قبل، امن کے عمل میں اگر کوئی پیش رفت ہوئی تو اس سے صدر اوباما اور وزیر اعظم نیتن یاہو دونوں کو داخلی طور پر مدد ملے گی۔

XS
SM
MD
LG