رسائی کے لنکس

دہشت گردی کے خلاف ترکی کے کردار پر امریکی قانون سازوں کی رائے


سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے اعلیٰ رکن ڈیموکریٹ سینیٹر بین کارڈن کہتے ہیں کہ ترکی اب واضح طور پر خطے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔

ترکی کی طرف سے داعش اور کرد باغیوں کے خلاف شروع کی گئی مہم پر امریکی قانون سازوں کی طرف سے ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔

شدت پسند گروپ داعش کے خلاف کارروائیوں میں موثر انداز میں شرکت اور خصوصاً داعش کے اہداف پر حملوں کے لیے امریکہ کو ترکی کے فضائی اڈے استعمال کرنے کی جازت دیے جانے کا ریپبلکن اور ڈیموکریٹ قانون سازوں نے خیر مقدم کیا ہے۔

ریپبلکن سینیٹر جونی اساکسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ "انجرلک (کا فضائی اڈہ) حکمت عملی کے اعتبار سے بہت اہم جگہ واقع ہے۔ خلیج اور افغانستان کی جنگوں میں ترکی نے ہمیں یہ فضائی اڈہ استعمال نہیں کرنے دیا، لہذا حقیقت یہ ہے کہ ابھیں اب ادراک ہو چلا ہے۔"

سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے اعلیٰ رکن ڈیموکریٹ سینیٹر بین کارڈن کہتے ہیں کہ ترکی اب واضح طور پر خطے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ "وہ (ترکی) اب کھلاڑی کے طور پر میدان میں ہے اور نیٹو کے ساتھ زیادہ متحد ہونے کی کوشش کر رہا ہے، بالآخر یہ داعش کے خلاف ہماری مہم کے لیے ایک اچھی خبر ہو گی۔"

کارڈن کا کہنا تھا کہ انجرلک خطے کے اہم راستوں میں سے ایک پر واقع ہے "لہذا ترکی کے تعاون سے ہمیں مزید جہتیں ملیں گی۔"

ترکی نے گزشتہ ہفتے شام میں داعش اور عراق میں کالعدم کردستان ورکرز پارٹی کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کیے تھے اور منگل کو اس کی درخواست پر ہونے والے نیٹو اجلاس میں رکن ممالک نے اس کے اقدام کو سراہا تھا۔

ایوان نمائندگان کے ڈیموکریٹ رکن براڈ شرمن کے خیال میں ترکی "دونوں طرف ہے، ایک طرف تو وہ داعش پر بمباری کر رہا ہے اور دوسری طرف وہ داعش سے لڑنے والوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ لہذا میرا خیال ہے کہ انھوں (ترکی) نے یہ ضروری سمجھا کہ ہمیں داعش پر بمباری میں مدد دیں تاکہ وہ داعش کے دشمنوں پر اپنے حملوں کا جواز فراہم فراہم کر سکیں۔"

ایسے ہی خیالات کا اظہار ریپبلکن رکن ڈانا روہرابیکر نے بھی کیا۔

"ہمیں ترکی کی حکومت کی طرف سے ملے جلے اشارے مل رہے ہیں، ہمیں یہ پتا چلا کہ ہم انجرلک کا فضائی اڈہ استعمال کر سکتے ہیں، میں وہاں جا چکا ہوں اور مجھے پتا ہے کہ یہ علاقے کی سلامتی کے لیے کتنا اہم ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہم دیکھتے ہیں کہ ترک فورسز داعش سے لڑنے والے کرد جنگجوؤں سے بھی برسرپیکار ہیں۔ لہذا انھیں ایک فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے، کیا وہ ہمارے ساتھ چلیں گے یا پھر ان انتہا پسندوں کے ساتھ جو مغربی تہذیب کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔"

سینیٹر کارڈن ترک اور کردوں کے درمیان کشیدگی کو تاریخی نوعیت کا قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ "پیچیدہ صورتحال" ہے۔

لیکن انھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ داعش کے خلاف لڑائی انقرہ اور کرد فورسز میں ایک "مشترکہ مفاد" کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG