رسائی کے لنکس

وسط مدتی انتخابی مہم آخری ہفتے میں داخل


وسط مدتی انتخابی مہم آخری ہفتے میں داخل
وسط مدتی انتخابی مہم آخری ہفتے میں داخل

امریکہ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان کانگریس پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کی جنگ آخری ہفتے میں داخل ہوگئی ہے اور دونوں فریقین کی جانب سے ووٹرز کو اپنی اپنی جانب راغب کرنے کی کوششیں انتہا پر پہنچی ہوئی ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں اور ووٹرز کا رجحان جانچنے کیلئے کیے جانے والے مختلف سرویز کے مطابق امریکی کانگریس کے وسط المدتی انتخابات سے قبل ری پبلکنز کا پلڑا بھاری ہے اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ انتخاب کے دن تک اپنی یہ برتری برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں گے۔
زیادہ تر امریکیوں کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں رواں سال کا سب سے اہم مسئلہ ملکی اقتصادیات رہا۔ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال کے بارے میں پائی جانے والی یہ عوامی ناراضگی 2 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں ڈیموکریٹ کو نقصان اور ری پبلکنز کو فائدہ پہنچانے کا سبب بنے گی۔
ری پبلکنز پارٹی کے امیدواران کیلئے مہم چلانے والوں میں اوہائیو سے کانگریس کے منتخب رکن جان بوہنر بھی شامل ہیں۔ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ اگر ری پبلکنز اگلے ہفتے ہونے والے انتخابات میں میدان مارنے میں کامیاب ہوگئے تو ہاؤس کی اسپیکر شپ کا تاج جان بوہنر کے سر سجے گا۔
بوہنر ووٹرز کو اپنی پارٹی کے امیدواران کیلئے ووٹ ڈالنے پر یہ کہہ کر آمادہ کر نے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ "اگر آپ تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھوتی ہوئی بے روزگاری اور معاشی بدحالی سے پریشان ہیں تو سمجھ لیجیے کہ یہ انتخاب صحیح فیصلے کا وقت ہے"۔
انتخابات سے قبل جاری ہونے والے عوامی آراء کے جائزوں میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ری پبلکن پارٹی کے ووٹرز ڈیمو کریٹس کے مقابلے میں اس بار زیادہ پر جوش ہیں۔ تاہم اس بات کا امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ رواں انتخابات میں نسبتاً بد دلی کا مظاہرہ کرنے والے ڈیمو کریٹس انتخابی مہم کے آخری دنوں میں اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لاتے ہوئے سرگرم ہوجائیں۔
رواں انتخابی مہم میں ری پبلکن پارٹی کی بھرپور سرگرمیوں کا سہرا ٹی پارٹی تحریک کے سر باندھا جارہا ہے۔ ٹی پارٹی موومنٹ ملک بھر میں پھیلے روایت پرستوں اور آزادی پسندوں کا ایک ایسا غیر منظم اتحاد ہے جو عدم وفاقیت ، علاقائی خود مختاری اور حکومتی اخراجات اور محصولات میں کمی لانے جیسے مطالبات کی منظوری کیلئے کوشاں ہے۔
میسا چوسٹس کے ایک علاقے میں ہونے والے ٹی پارٹی کے مظاہرے میں شریک ایک صاحب نے اپنی جماعت کا تعارف کچھ یوں کرایا: "ہم ناراض افراد کا ایک گروپ ہیں۔ لیکن میں دوسرے لوگوں سے یہ نہیں کہتا کہ وہ ہماری اس تنظیم میں شامل ہوجائیں بلکہ میں انہیں کہتا ہوں کہ میں ٹی پارٹی کا ایک کارکن ہوں اور آپ بتائیے کہ مجھے آخر کرنا کیا چاہیے!!!"
رواں انتخابات میں ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ میں برتری برقرار رکھنے میں ناکامی کے اندیشے نے حکمران جماعت ڈیموکریٹ کے رہنماؤں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں تاہم سینیٹ کی چند اہم نشستوں پر دونوں جماعتوں کے درمیان ووٹنگ کے دن سخت مقابلے کے حالیہ روشن امکانات نے ڈیموکریٹس کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کیا ہے۔
ایوانِ نمائندگان پہ اپنا تسلط یقینی بنانے کیلئے ری پبلکنز کو 39 سیٹوں پہ فتح حاصل کرنا ہوگی جبکہ سینیٹ میں ڈیمو کریٹس پر اپنی برتری قائم کرنے کیلئے اسے مزید 10 نشستیں درکار ہیں۔
تاہم ایم ایس این بی سی ٹیلی ویژن سے وابستہ سیاسی تجزیہ کار رچرڈ وولف کا کہنا ہے کہ ری پبلکنز کے حق میں کی جانے والی تمام تر پیش گوئیوں کے باوجود رواں انتخابات میں دونوں جماعتوں کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔
ڈیمو کریٹس اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اگر ایک عام امریکی ووٹر نے کساد بازاری کا شکار ہونے والی معیشت کے تناظر میں رواں انتخابات کو حکمران جماعت کی پالیسیوں پر اپنی رائے کے اظہار کیلئے ایک ریفرنڈم کے طور پر لیا تو ان کی شکست یقینی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر بارک اوباما نے ڈیمو کریٹ پارٹی کے امیدواران کی انتخابی مہم کے دوران اپنے خطابات میں رائے دہندگان کو بار بار یہ باور کرایا کہ وہ رواں انتخابات کو "ماضی میں لوٹ جانے یا مستقبل کی طرف قدم بڑھانے" کے فیصلے کے انتخاب کے طور پر لیں۔
ایسی ہی ایک ریلی سے اپنے خطاب میں صدر اوباما کا کہنا تھا "ان(ری پبلکنز) کی تمام انتخابی مہم اس کوشش پر مرکوز ہے کہ آپ ماضی کو بھول جائیں۔ لیکن آپ کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ انتخابات آپ کو فیصلے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ فیصلہ، کہ آیا آپ ان پالیسیوں کی طرف لوٹ جانا چاہتے ہیں جنہوں نے آپ کو ان بحرانوں میں دھکیلا یا آپ ان پالیسیوں کا انتخاب کریں گے جو آپ کو ان بحرانوں سے باہر نکال رہی ہیں"۔
تازہ ترین اعدادوشمار کے باوجود،جو یہ ظاہر کررہے ہیں کہ سینیٹ کی بیشتر اہم نشستوں پر دونوں جماعتوں کے درمیان سخت مقابلہ کی توقع ہے، انتخابی صورتِ حال کی مجموعی تصویر سے ظاہر ہورہا ہے کہ حالات ڈیمو کریٹس کے مقابلے میں ری پبلکنز کیلئے زیادہ سازگار ہیں۔
کیرل باؤمن واشنگٹن کے 'امریکن انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ' میں عوامی رائے عامہ کے جائزوں کی نگرانی کے کام کے ذمہ دار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں کرائے جانے والے تمام جائزوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکی عوام اپنے صدر، کانگریس اور سیاسی جماعتوں کی کارکردگی اور ملکی حالات سے سخت غیر مطمئن ہیں۔
تاہم باؤمن کہتے ہیں کہ اس حقیقت کے باوجود کہ کئی امریکی ووٹرز ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ری پبلکنز کے بارے میں زیادہ منفی رائے رکھتے ہیں، اس بات کا امکان موجود ہے کہ اگلے منگل کو ہونے والی ووٹنگ میں ری پبلکن پارٹی بہتر کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہوجائے۔
ناتھن گونزالیز واشنگٹن سے شائع ہونے والے ایک غیر جانبدار نیوزلیٹر "روتھن برگ پولیٹیکل رپورٹ" کے ایڈیٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ امریکی ووٹرز ملکی صورتحال سے مایوس ہیں اور اس مایوسی کے عالم میں وہ ان کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں۔
"اسی لیے ڈیمو کریٹس اس الیکشن کو امریکی عوام کے سامنے اپنے اور ری پبلکنز کے درمیان ایک انتخاب کے طور پر پیش کررہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں اگر وہ عوام میں مقبول نہیں تو ری پبلکنز کو بھی عوامی پذیرائی حاصل نہیں"

امریکی انتخابی تاریخ پہ نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ امیدواران کی جانب سے حالیہ وسط المدتی الیکشن کیلئے چلائی جانے والی مہم تاریخ کی سب سے مہنگی انتخابی مہم ہوگی جس کے دوران کیے جانے والے اخراجات آئندہ ہفتے تک دو ارب ڈالرز سے تجاوز کر جائیں گے ۔

XS
SM
MD
LG