رسائی کے لنکس

مسلم دنیاسے بہتر تعلقات کے لیے جمہوریت کی حمایت ضروری


قاہرہ میں ایک سال قبل جون میں صدر اوباما کی شہرہ آفاق تقریر سے یہ توقعات بڑھ گئی تھیں کہ مسلمان دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات جلدبہتر ہو جائیں گے۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ مسلمان اکثریت والے بہت سے ملکوں میں یہ تشویش عام ہے کہ امریکہ کی طرف سے مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت کی واضح حمایت کے بغیر تعلقات میں بہتری نہیں آ سکتی۔ مشرقِ وسطیٰ وہ علاقہ ہے جہاں بہت سی غیر جمہوری حکومتوں کو ٹھوس امریکی حمایت حاصل ہے ۔

قاہرہ کی تقریر میں صدر اوباما نے ایسی حکومتوں کی حمایت کا عہد کیا جو اپنے عوام کے اظہارِ رائے کی آزادی کے حق کی حفاظت کرتی ہیں، جو قانون کی حکمرانی اور سب کو برابر کے انصاف کی فراہمی کی علمبردار ہیں، جو شفاف ہیں اور اپنے عوام کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈالتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’امریکہ دنیا بھر کے تمام پُر امن اور قانون کی پابندی کرنے والے لوگوں کے اس حق کی حمایت کرتا ہے کہ ان کی آواز کو سنا جائے چاہے ہمیں ان سے اختلاف ہی کیوں نہ ہو۔اور ہم تمام منتخب ، پُر امن حکومتوں کا خیر مقدم کریں گے، بشرطیکہ وہ اپنے طرزِ حکومت میں تمام لوگوں کے لیے احترام کا مظاہرہ کریں‘‘۔

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں مذہب کے ایسو سی ایٹ پروفیسر رضا اسلان کے مطابق، اس وعدے کو پورا کرنے میں اوباما انتظامیہ کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ یہ ہے کہ اس عمل میں تمام اسلامی تحریکوں کو کس طرح شامل کیا جائے ۔ وہ سینٹر فار دی اسٹڈی آف اسلام اینڈ ڈیموکریسی کے زیرِ اہتمام ہونے والی ایک حالیہ کانفرنس میں تقریر کر رہے تھے ۔ اسلان نے کہا کہ واشنگٹن نے روایتی طور پر مطلق العنان حکومتوں کی حمایت کی ہے کیوں کہ اس کا خیال ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو مغرب کے مخالف اسلامی گروپ جیسے اخوان المسلمین بر سرِ اقتدار آ جائیں گے۔ لیکن پروفیسر اسلان کا خیال ہے کہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کے اپنے حکمراں خود منتخب کرنے کے حق کا احترام کیا جائے ۔ان کے مطابق ’’یہ سب اس علاقے کے وسیع تر سیاسی عمل میں مسلمانوں کی آواز شامل کرنے کی کوشش کا حصہ ہونا چاہیئے بلکہ انہیں صحیح معنوں میں یہ طے کرنے کا موقع ملنا چاہیئے کہ وہ کس کو حکمرانی کا حق دینا چاہتے ہیں‘‘۔

پروفیسراسلان نے کہا کہ صدر اوباما کو یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ امریکہ جن بہت سے اسلامی گروپوں کی پالیسیوں اور طریقوں کا مخالف ہے وہی علاقے میں سب سے زیادہ متحرک سیاسی گروپ ہیں۔ سیاسی عمل میں شرکت کے نتیجے میں شدت پسندی کے رجحانات میں اعتدال آ جاتا ہے اور انتہا پسند نظریات کی کشش ختم ہو جاتی ہے ۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں مطالعۂ اسلام کے پروفیسر طارق رمضان اس خیال سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلامی گروپوں کے ساتھ رابطے کا پیمانہ صرف یہ ہونا چاہیئے کہ وہ سیاسی ہتھیار کے طور پر تشدد کی مذمت کریں اور جمہوری اصولوں کی پابندی کریں۔ انھوں نے کہا کہ ’’آپ اسلامی رجحانات سے متفق ہوں یا نہ ہوں، لیکن جب تک وہ تشدد کے مخالف ہیں اور سیاست میں حصہ لے رہے ہیں، ہمیں ان سے بات کرنی چاہیئے ۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ اچھے مسلمان ہیں کیوں کہ آپ میری حمایت کر رہے ہیں، اور آپ اچھے مسلمان نہیں کیوں کہ آپ میرے مخالف ہیں‘‘۔

پروفیسر رمضان کہتے ہیں کہ جمہوریت کے لیے صدر اوباما کی حمایت کا اصل امتحان مصر میں ہو گا۔ پروفیسر رمضان کہتے ہیں کہ وہاں مبارک حکومت پر دباؤڈالنا ضروری ہے کہ وہ سیاسی عمل میں آزادی دے اور سیاسی عمل میں مقابلے کو کچلنے کے لیے آئینی ترمیموں کا استعمال بند کرے۔

مسلمان دنیا میں رائے عامہ کے جائزوں میں بار بار یہ احساس سامنے آیا ہے کہ امریکہ جمہوری آزادی کے تصورات کو فروغ دیتا ہے لیکن مسلمان دنیا میں غیر جمہوری حکومتوں کی حمایت کےذریعے ان تصورات کی نفی کرتا ہے۔ انٹرنیشنل پالیسی ایٹیٹیوڈز کے ڈائریکٹر سٹیون کل کہتے ہیں کہ اس طرح یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ امریکہ جمہوریت کے معاملے میں مسلمانوں پر اعتماد نہیں کرتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’عام تاثریہ ہے کہ امریکہ مسلمان دنیا میں جمہوریت نہیں چاہتا کیوں کہ اسے ڈر ہے کہ اس کے نتیجے میں اسلامی پارٹیاں بر سرِ اقتدار نہ آجائیں۔ امریکہ کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہے۔ کیا امریکہ مسلمان عوام پر اور جمہوری عمل میں ان کے فیصلوں پر زیادہ اعتماد کا مظاہرہ کرنے کو تیار ہے‘‘؟ سٹیون کل کا خیال ہے کہ اوباما انتظامیہ کو ایسی اعتدال پسند اسلامی پارٹیوں کے بارے میں جو تشدد کی قائل نہیں، اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہیئے۔

سینٹر فار دی اسٹڈی آف اسلام اینڈ ڈیموکریسی کے صدر، رضوان مسمودی اس خیال سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے جیسے صدر اوباما مکالمے کو وسعت دیں گے اور اس میں سول معاشروں اور عام شہریوں کو شامل کریں گے، انہیں احساس ہو گا کہ امریکہ کی اپنی پالیسی بدلنی چاہیئے ۔لیکن وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تعلقات بہتر بنانے کی بنیاد ی شرط یہ ہے کہ امریکہ مسلمان دنیا میں جمہوریت کی حمایت کرے ۔ ان کے مطابق ’’اس میں کچھ تاخیر ہوئی ہے لیکن گذشتہ چار پانچ مہینوں میں، ہم نے دیکھا ہے کہ مسلمان دنیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے، اور قاہرہ کی تقریر کے وعدوں پر عمل در آمد پر زور دیا جا رہا ہے‘‘۔

مسمودی کہتے ہیں کہ صدر اوباما نے اپنے عہدے کے پہلے سال میں اقتصادی بحران سے نمٹنے اور علاج معالجے کے نظام میں اصلاح پر توجہ دی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ توقع کرنا حقیقت سے بعید ہوگا کہ وہ مسلمان دنیا کے نام اپنے ولولہ انگیز خطاب کے بعد، ایک سال سے بھی کم عرصے میں اپنے بیشتر وعدے پورے کر سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG