رسائی کے لنکس

امریکہ اور مسلم دنیا کے تعلقات:بہتری کب آئے گی


مکہ معظمہ
مکہ معظمہ

دہشت گردی کے خلاف جنگ کوبعض لوگ اسلام اور مغرب کے درمیان ایک تنازع کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔۔صدر اوباما نے گزشتہ برس قاہرہ کے اپنے خطاب میں اس تاثر کو زائل کرنے اور امریکہ اور مسلم ممالک کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اس خطاب کے ایک سال بعد بھی ماہرین کا کہنا ہے کہ عشروں کی اس سرد مہری کے خاتمے کے لیے اب بھی مزید وقت کی ضرورت ہے۔

صدر اوباما کے مسلم امہ سے مصر میں خطاب کو ایک برس مکمل ہو چکا ہے۔ مسلم دنیا کی جانب ان کا بڑھایا جانے والا دوستی کا ہاتھ کیا محض الفاظ کا ایک مجموعہ ثابت ہوا یا پھر امریکہ اور مسلم دنیا کے درمیان تعلقات میں فی الوقع کوئی بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ سوال آج کل صرف مسلم دنیا میں ہی نہیں بلکہ مغرب میں بھی بحث کا ایک موضوع ہے۔

مسلمانوں کا موقف ہے کہ امریکہ کو مسلمانوں کو دہشت گردی کے لیبل سے ہٹ کر دیکھنے کی عادت ڈالنا ہوگی ،کیونکہ اسلام امن و رواداری کا مذہب ہے اور قرآن ِ پاک میں ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ چند مٹھی بھر دہشت گردوں کی بنا پر تمام مسلمانوں کو دہشت گرد قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔

اوآئی سی کے لیے صدر اوباما کی جانب سے منتخب کیے گئے امریکی سفیر رشاد حسین کا کہنا ہے کہ صدر اوباما مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کے خلاف ہیں اور امریکہ مختلف شعبوں میں مسلمان دنیا کے ساتھ تعلقات اور رابطے بڑھانے میں سنجیدہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ مسلم دنیا سے بہت سے معاملات میں تعاون بڑھا رہا ہے۔ صدر اوباما کے گذشتہ برس مصر میں مسلم امہ سے خطاب کے بعد میں نے امریکہ اور مسلم دنیا کے درمیان تعلقات میں بہتری محسوس کی ہے۔ صدر اوباما نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ مسلمانوں کو محض دہشت گردی یا سیاسی مسائل سے نہ جوڑا جائے ،بلکہ انکے ساتھ دیگر بہت سے شعبوں میں تعاون اور مدد کی جائے۔

امریکہ میں بسنے والے مسلمان اس صورت ِ حال کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ امریکہ میں مسلمان ہونا کیسا ہے اور اس سلسلے میں امریکی مسلمانوں پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟ امریکی کانگریس کے پہلے مسلمان رکن کیتھ ایلی سن نے اس بارے میں گذشتہ دنوں واشنگٹن ڈی سی کے تھنک ٹینک سینٹر فار امریکن پراگریس میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ امریکہ میں بسنے والے مسلمان یہاں دہشت گردی کے خلاف متحد ہوجائیں۔

ان کا کہناتھاکہ دہشت گردی کے خلاف متحد ہوکر کھڑے ہونا ہر امریکی مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم یہ ظاہر کرسکتے ہیں کہ ہم بھی امریکہ کی ترقی اور سیکیورٹی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

امریکہ میں تقریبا70 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ نائن الیون جیسے واقعہ کے بعد امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف پائے جانے جذبات اور پھر نیویارک کے ٹائمز سکوئر میں فیصل شہزاد کی جانب سے دہشت گردی کی مبینہ کوشش، امریکہ میں مسلمانوں کی امن پسندی کے تاثر کو کس طرح زائل کرتی ہے اور مسلمانوں کو اس صورت حال سے نکلنے کے لیے کیا کردار ادا کرنا ہوگا؟ کیتھ ایلی سن کہتے ہیں کہ اس حوالے سے مسلمانوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں امریکہ میں مسلمان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے اردگرد کے لوگ، دوست احباب اور آپ کے ساتھ کام کرنے والے آپ سے یہ امید رکھتے ہیں کہ آپ اندرونی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ میرے نزدیک ان کی یہ سوچ درست ہے۔ امریکہ میں بسنے والے ہر فرد کو، خواہ اس کاتعلق کسی بھی مذہب اور کسی بھی فرقے سے ہو، امریکہ کی ترقی اور سیکیورٹی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

رشاد حسین کا کہنا ہے کہ امریکہ مسلمانوں کے ساتھ تعلقات کی تلخی کو سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ صدر اوباما اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات پر یقین رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر اوباما نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد سینیٹر مچل کو مشرق ِ وسطیٰ کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داریاںسونپیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے بہت سنجیدہ ہیں۔

کانگریس مین کیتھ ایلی سن اور او آئی سی کے لیے امریکی سفیر رشاد حسین مستقبل میں امریکہ اور مسلم دنیا کے درمیان تعلقات کے حوالے سے پرامید ہیں اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ امریکہ اور مسلم دنیااپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔

واشنگٹن میں ماہرین کا کہنا ہے امریکہ اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات میں بہتری مختلف شعبوں میں تعاون بڑھا کر اورٹھوس اور ترجیحی بنیادوں پر کام کرکے لائی جاسکتی ہے، مگر اس کے لیے وقت درکار ہے۔

XS
SM
MD
LG