رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: ڈرون مہم میں متعدد خفیہ رعائتو ں پر عمل درآمد


امریکی اخبارات سے: ڈرون مہم میں متعدد خفیہ رعائتو ں پر عمل درآمد
امریکی اخبارات سے: ڈرون مہم میں متعدد خفیہ رعائتو ں پر عمل درآمد

’وال اسٹریٹ جرنل‘ کی رپورٹ ہے کہ امریکہ کی سنٹرل انٹلی جینس ایجنسی (سی آئی اے) نےاپنی ڈرون مہم میں متعدد خفیہ رعائتو ں پر عمل درآمد شُروع کر دیا ہے۔ اس سے پہلے فوجی اور سفارتی عہدہ داروں نے شکایت کی تھی کہ بھاری بھاری حملے کرنے سے پاکستان کے ساتھ نازُک تعلّقات کو نقصان پہنچ رہا تھا ۔

اِن خفیہ حملوں کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کی مدد سے سینکڑوں مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہےاور کسی امریکی عہدہ دار نے اس مہم پر اور نہ اس حقیقت پر نقطہ چینی کی ہے کہ صدر براک اوبامہ کے دور میں اس میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ البتہ اخبار کے بقول، درپردہ بہت سے کلیدی فوجی اور محکمہٴ خارجہ کے عہدہ داروں کا مطالبہ رہا ہے کہ یہ حملے گنے چُنے ہونے چاہئیں ۔اس پر ان کا سی آئی اے کے اعلیٰ کارپردازوں کے ساتھ تصادُم بھی ہوا جو مشتبہ دہشت گردوں کا تعاقب کرنے لئے پُوری آزادی چاہتے ہیں۔

اخبار کہتاہے کہ ڈرون حملوں پر اختلافات نے اتنا طُول پکڑا کہ وہائٹ ہاؤس میں موسم گرما کے دوران اس کا جائزہ لیا گیا، جس میں مسٹر اوبامہ نے خود مداخلت کی۔

اس جائزے میں بالآخر سی آئی اے کے بنیادی پروگرام کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔ لیکن شرط یہ لگا دی گئی کہ سی آئی اے کو کسی حملے سے پہلے یہ یقین کر لینا چاہئے کہ اس کا فائدہ ہوگا۔ محکمہّ خارجہ کو ایسے حملوں کے فیصلوں پر زیادہ اختیار دیا گیا۔ مزید حملوں کے بارے میں پاکستانی لیڈروں کو پہلے سے خبردار کرنا بھی لازمی قرار دیا گیا۔اس کے علاوہ طے پایا ۔ کہ پاکستانی عہدہ دار جب امریکہ کے دورے پر ہوں تو یہ حملے نہ کئے جایئں ۔

اخبار کے خیال میں ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان پر ڈرون حملوں پریہ بحث اس سوچ پر اثر انداز ہو رہی ہے۔کہ امریکہ کو دنیا کے دوسرے علاقوں میں ان ڈرون طیّاروں کو کیونکر استعمال کرنا چاہئے۔ ستمبر کے مہینے میں امریکہ نے یہ بغیر ہوا باز کے چلنے والا طیارہ امریکی نژادمولوی انور الاولکی کو، جس پر دہشت گرد ہونے کا شُبہ تھا۔ ہلاک کرنے کے لئے یمن میں استعمال کیا تھا۔ لیکن اخبار کے بقول وہائٹ ہاؤس نے اب وہاں معمولی درجے کے دہشت گردوں کے جتھوں پر حملہ کرنے منع کر دیا ہے۔

’سان فرانسسکو کرانیکل‘ اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق کیوبا میں نصف صدی مین پہلی بار جائداد خریدنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ اور اب یہ جائداد مالک بغیرکسی قید کے اپنےعزیزوں کو قانونی طور پر ورثے میں دے سکتے ہیں۔ اب ملک چھوڑ کر جانے والوں کی جائداد بھی ضبط نہ کی جایا کرےگی۔

اخبار کہتا ہے کہ اس اقدام کو نئے صدرراؤل کاستروکےسنہ 2008 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے اہم اصلاح کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ اس سے پہلے اکتوبر میں کاروں کی خرید و فروخت کو جائز قرار دیا گیا تھا۔ اگرچہ، بعض پابندیاں برقرار ہیں۔ کاسترو زور دے کرکہ چکے ہیں کہ کیوبا کے سوشلسٹ ماڈل سے روگردانی نہیں کی جائے گی۔

البتہ، سرکاری کنٹرول میں چلنے والی ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے لاکھوں سرکاری ملازمتیں ختم کر دی جائیں گی اور فیاضانہ مالی اعانتیں بھی ختم کر دی جائیں گی کیونکہ حکومت ان کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ملک کے کارندوں میں سے اسّی فیصد ،حکومت کے ملازم ہیں جنہیں صرف بیس ڈالر ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ البتہ انہیں مفت تعلیم اور طبّی نگہداشت اور تقریباًٍ مفت رہائشیی سہولت دستیاب ہے۔

اقتصادی اور کیوبا کے ماہرین نے جائداد اور مکا نوں کی ملکیت کے بارے میں اس نئے اقدام کو نہائت مثبت قرار دیا ہے اور اسے اقتصادی آزادی کی طرف پیش رفت سے تعبیر کیا ہے لیکن کہا ہے ۔ کہ یہ کیوبا کی لڑکھڑاتی ہوئی معیشت میں تبدیلی لانے کے لئے کافی نہیں ہوگی۔

تعلیمی اداروں میں طلبہ کو موبائل فون لے جانے کی اجازت ہونی چاہئے؟ ۔ اس پر نیو یارک کے اخبار نیوز ڈے میں ایک قاری لکھتا ہے۔ کہ اساتذہ اور ان اداروں کے کارپردازوں کی رپورٹ ہے۔ کہ کلاس میں سیل فونوں کی موجودگی کام میں بڑا خلل ڈالتی ہے۔ طالب علم کیا سیکھتا ہے اور سمجھتا ہے

سٹین فرڈ یونیورسٹی کے ایک جائزے کے مطابق ڈجِٹل آلات کے استعمال سے اس پرمنفی اثر پڑتا ہے اور سیل فون کی موجودگی سے بھی طالب علم کی بٹی ہوئی توجُّہ پر منفی اثر پڑتا ہے ۔ جب طلبہ کو کلاس میں سیل فون لانے کی اجازت دی جائے گی ۔ تو وہ اپنے دوستوں کو بلائیں گے ان کو ٹیکسٹ کریں گےانٹرنیٹ پر سرفنگ کرینگےاور گیمز کھیلیں گے۔ ایک بار اجازت دی گئی تو ہٹانا نا ممکن ہو جائے گا۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG