رسائی کے لنکس

خبردار! میرا نیوکلیئر بٹن سب سے بڑا اور خطرناک ہے: صدر ٹرمپ


صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ اُن کے پاس ایک ایسا نیوکلیئر بٹن ہے جو شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ اُن کے بٹن سے کہیں زیادہ بڑا اور طاقتور ہے۔

صدر ٹرمپ نے کہ یہ بات شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ اُن کے اُس پیغام کے بعد ایک ٹویٹ میں کہی جس میں شمالی کوریا کےلیڈر نے کہا تھا کہ اُن کی میز پر ایک ایسا بٹن موجود ہے جسے دباتے ہی وہ امریکہ کے تمام علاقوں کو اپنے جوہری بموں سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔

اس کے جواب میں صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کیا،

’’کیا اُن کی فاقہ زدہ اور کمزور حکومت میں سے کوئی شخص اُنہیں بتائے گا کہ میرے پاس بھی ایک نیوکلیئر بٹن موجود ہے لیکن یہ بٹن اُن کے بٹن سے زیادہ بڑا اور انتہائی طاقتور ہے اور یہ بٹن کام بھی کرتا ہے۔‘‘

تاہم حقیقت میں صدر ٹرمپ کی میز پر کوئی نیوکلیئر بٹن موجود نہیں ہے۔ امریکہ میں جوہری حملہ کرنے کا نظام انتہائی خفیہ اور پیچیدہ ہے جس میں ’’نیوکلیئر فٹ بال‘‘ کی اصطلاح سے موسوم نظام استعمال کیا جاتا ہے۔ اس نظام میں شامل فوجی افسران بار بار تبدیل کر دئے جاتے ہیں اور صدر جہاں بھی جاتے ہیں اُن کے پاس کمانڈر اِن چیف ہونے کے ناطے ایسا مواصلاتی رابطے کا نظام اور جنگی منصوبہ موجود ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ جنگی صورت حال میں ضرورت پڑنے پر جوہری حملے کا حکم دے سکتے ہیں۔

اگر صدر جوہری حملے کا ارادہ کرتے ہیں تو اُنہیں پینٹاگون میں بات کرتے وقت مخصوص کوڈ استعمال کرتے ہوئے اپنی شناخت ظاہر کرنی ہو گی۔ یہ کوڈ ایک کارڈ پر ریکارڈ ہوتے ہیں جسے خفیہ زبان میں ’’بسکٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ صدر یہ کارڈ ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ یوں ابتدائی پیغام کے بعد صدر پینٹاگون اور اسٹریٹجک کمانڈ کو لانچ کا حکم دے سکتے ہیں۔

اس ٹویٹ سے قبل صدر ٹرمپ نے دونوں کوریاؤں کے درمیان بات چیت کیلئے حمایت کا اظہار کیا تھا۔ شمالی کوریا کے لیڈر نے اپنے نئے سال کے پیغام میں جنوبی کوریا کو وفود کی سطح پر بات چیت کی پیشکش کی تھی۔ تاہم اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب نکی ہیلی نے کہا تھا کہ ایسی بات چیت اُس وقت تک سود مند ثابت نہیں ہو سکتی جب تک شمالی کوریا اپنے جوہری ہتھیاروں کو ختم نہیں کر دیتا۔

شمالی کوریا نے بات چیت کی پیشکش اگلے ماہ جنوبی کوریا کی میزبانی میں ہونے والے سرمائی اولمپک کھیلوں کے پس منظر میں کی تھی۔ ایک اور ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا، ’’شمالی کوریا کے فوجی خطرہ مول لیتے ہوئے بھاگ کر جنوبی کوریا میں پناہ لے رہے ہیں اور اب راکٹ مین جنوبی کوریا سے بات چیت کرنا چاہتا ہے۔ شاید یہ اچھی خبر ہے یا شاید اچھی نہیں ہے۔ ہم دیکھیں گے۔ ‘‘

XS
SM
MD
LG