رسائی کے لنکس

امریکہ کا داعش کے سربراہ کو ہلاک کرنے کے ایردوان کے دعوے کی تصدیق سے انکار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ داعش کے سربراہ کو ایک کارروائی میں ہلاک کرنے کے ترکیہ کے دعوے کی تصدیق سےاب تک انکار کر رہا ہے۔

ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے اتوار کو دعویٰ کیا تھا کہ ان کی فورسز نے شام کے شمالی علاقے میں ایک کارروائی کے دوران داعش کے سربراہ ابو الحسین الحسینی القریشی کو ہلاک کر دیا ہے۔

ترک صدر نے یہ دعویٰ ترکیہ کے نشریاتی ادارے 'ٹی آر ٹی' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ترک نیشنل انٹیلی جنس آرگنائزیشن نے ہفتے کو شام میں ایک کارروائی کے دوران داعش کے سربراہ کو ہلاک کیا ہے۔

بعدازاں ترک میڈیا میں سیکیوریٹی ذرائع کے حوالےسے رپورٹس سامنے آئیں کہ ترک سیکیورٹی فورسز نے شام کے صوبے حلب میں جندیرس کے مقام پر کارروائی کی تھی ۔ یہ علاقہ ترکیہ کے حامی عسکریت پسندوں کے کنٹرول میں ہے۔

امریکہ کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس وقت واشنگٹن کو ایسی کوئی معلومات نظر نہیں آئیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ داعش کے سربراہ کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ امریکہ فی الحال ابوالحسین الحسینی القریشی کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کر سکتا۔

وائس آف امریکہ نے واشنگٹن ڈی سی میں ترکیہ کے سفارت خانے سے ایردوان کے داعش کے سربراہ کی ہلاکت کےبارے میں ایردوان کے دعویٰ کے حوالے سے رابطہ کیا تاہم اسے اب تک کوئی جواب نہیں ملا۔۔

داعش کے سربراہ ابو الحسین الحسینی القریشی کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں۔ ان کا نام پہلی بار گزشتہ برس نومبر میں سامنے آیا تھا جب داعش نے ان کے پیش رو ابو الحسن الہاشمی القریشی کی موت کا اعلان کیا تھا اور بتایا تھا کہ تنظیم نے ابو الحسین الحسینی کو اپنا نیا خلیفہ مقرر کر نےکا اعلان کیا تھا۔

امریکی حکام نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ ابو الحسین الحسینی القریشی سے قبل داعش کے تینوں سربراہ اس تنظیم کے بانیوں میں شامل تھے لیکن موجودہ سربراہ نے تنظیم میں بعد میں شمولیت اختیار کی تھی۔

ابو الحسین الحسینی القریشی کا شمار داعش کی قیادت میں شامل نئے قائدین میں ہوتا ہے۔

امریکہ کے خفیہ اداروں کی رپورٹس اور اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کی جانب سے فراہم کی جانے والی معلومات سے واضح ہوتا ہے کہ داعش کے نئے سربراہ ابو الحسین الحسینی القریشی منظرِ عام پر زیادہ نہیں آئے اور انہوں نے خود کو شہرت سے دور رکھا تاکہ وہ انسدادِ دہشت گردی کے آپریشنز میں خود کو محفوظ رکھ سکیں۔

گزشتہ ایک برس میں داعش کے لگ بھگ 13 انتہائی سینئر رہنماؤں کو انسدادِ دہشت گردی کے آپریشنز میں نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ ان آپریشنز میں وہ یا تو گرفتار ہوئے یا انہیں ہلاک کیا گیا ہے۔

ان رہنماؤں میں عبد الہادی محمود الحاجی علی بھی شامل تھے جنہیں امریکہ نے شمالی شام میں گزشتہ ماہ نشانہ بنایا تھا۔ وہ یورپ میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں میں شامل تھے۔ امریکی فورسز کے آپریشن میں جس وقت ان کی موت ہوئی اس وقت بھی وہ غیر ملکیوں کے اغوا کی منصوبہ بندی کرنے میں مصروف تھے۔

یہ پہلا موقع نہیں جب ترکیہ نے داعش کے کسی سینئر رہنما کوہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ انقرہ ماضی میں بھی شدت پسند تنظیم کے خلاف بڑی کامیابیوں کے دعوے کرتا رہا ہے۔

گزشتہ برس مئی میں ترک حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ابو الحسین کے نائب کو استبول سے گرفتار کر لیا ہے۔بعد ازاں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے خفیہ اداروں نے کہا تھا کہ ترکیہ کا دعویٰ مبالغہ آرائی پر مبنی ہے کیوں کہ جس شخص کو گرفتار کیا گیا تھا وہ بشر الخطاب السیمدائی تھے جو داعش کے سینئر رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔

واضح رہے کہ صدر رجب طیب ایردوان نے داعش کے سربراہ کی ہلاکت کا دعویٰ ایک ایسے موقع پر کیا ہے جب ترکیہ میں 14 مئی کو صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوگا۔

بعض اندازوں کے مطابق رجب طیب ایردوان کو ان انتخابات میں ایک بار پھر منتخب ہونے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ایردوان اپنی متعدد سیاسی سرگرمیوں کو بھی منسوخ کر چکے ہیں۔ ان کی عدم شرکت کی وجہ صحت کی خرابی بتائی گئی تھی۔

XS
SM
MD
LG