رسائی کے لنکس

یہ کہنا درست نہیں کہ پاک امریکہ انٹیلی جنس رابطےمنقطع رہے ہیں: تجزیہ کار


یہ کہنا درست نہیں کہ پاک امریکہ انٹیلی جنس رابطےمنقطع رہے ہیں: تجزیہ کار
یہ کہنا درست نہیں کہ پاک امریکہ انٹیلی جنس رابطےمنقطع رہے ہیں: تجزیہ کار

جب امریکہ سے ایسی رپورٹیں سامنے آتی ہیں کہ پاکستان خاطر خواہ کام نہیں کررہا تو یہ تمام چیزیں امریکہ مخالف لابیز لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ پھر ایک خدشہ یہ بیی ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکلنے کی حکمت ِعملی تلاش کررہا ہے: ہما بقائی

’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’اِن دِی نیوز‘ میں پاکستان کے لیے امریکہ کے سفیر کیمرون منٹر کی تقریر کے حوالے سے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں حالیہ کشیدگی کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے معروف تجزیہ کار ہما بقائی نے کہا کہ اِس وقت جس اہم بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ کم از کم پاکستان کے نقطہٴ نظر سے اس کی عسکری قیادت کوسنجیدہ نوعیت کی تشویش ہے ، اور بقول اُن کے، اب کہیں کہیں ایسا لگنے لگتا ہے کہ امریکی مطالبات کو ماننےکی صورت میں ہمارے قومی مفادات اور اہداف compromised ہوتے نظر آتے ہیں۔

کامران بخاری کا کہنا ہے کہ پاکستان کی انٹیلی جنس کے سربراہ واشنگٹن میں اپنے ہم منصب سے بات چیت کے لیے روانہ ہوچکے ہیں اور یہ میٹنگ اچانک نہیں ہوئی بلکہ پہلے سےطے شدہ تھی۔ اِس لیے میڈیا کا یہ کہنا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان انٹیلی جنس کے رابطے اب تک منقطع تھے، درست نہیں ہے۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ انٹیلی جنس کے سربراہوں کی اِس میٹنگ میں ایک تو تعلقات کو بحال کرنے اور بہتر کرنے کی کوشش ہوگی لیکن غالباً دوسری بات یہ بھی ہوگی کہ جو پرانے rules of the gameہیں اُن پر ازسرِ نو بات چیت کی ضرورت ہے۔

سفیر منٹر نے اپنی تقریر میں اس تصور کو قطعی طور پر غلط قرار دیا ہےکہ امریکہ پاکستان کو کمزور دیکھنا چاہتا ہے۔اُنھوں نے کہا ’اس کے برعکس، شہادتیں اِس کی مظہر ہیں کہ امریکہ ایک ایسا مضبوط اور مستحکم پاکستان دیکھنا چاہتا ہے جہاں جمہوری ادارے مؤثر اور شفاف ہوں اور جہاں پاکستانیوں کے غیر معمولی امکانات کو ہر ایک کے فائدے کے لیے سامنے لایا جاسکے۔‘

اِس پر بات کرتے ہوئے ہما بقائی نے کہا کہ کچھ ایسی علامتیں ہیں جو اِس سوچ کو تقویت پہنچاتی ہیں جس کی سفیر منٹر نے نفی کرنے کی کوشش کی ہے۔اُنھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب امریکہ سے ایسی رپورٹیں سامنے آتی ہیں کہ پاکستان خاطر خواہ کام نہیں کررہا تو یہ تمام چیزیں امریکہ کی مخالف لابیز لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ پھر ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکلنے کی حکمت ِعملی تلاش کررہا ہے۔

تاہم ، کامران بخاری کا کہنا تھا کہ امریکہ 1989ء والی اُس غلطی کو نہیں دہرانا چاہتا جو افغانستان سے جلد بازی میں نکل جانے سے متعلق ہے اور اِسی لیے امریکہ دیرینہ تعلقات کی تشکیل کے لیے کام کر رہا ہے، لیکن اِس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اِس وقت پورے مشرق ِوسطیٰ میں جو صورتِ حال ہے اُس کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان پر توجہ کم ہوئی ہے۔

اپنی تقریر میں سفیر منٹر نے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کے مستقبل پر بات کرتے ہوئےکہا ہے کہ چند ماہ پہلے اپنی آمد کے مقابلے میں، اب وہ کہیں زیادہ پُر امید ہیں کیونکہ اب وہ پاکستانی عوام میں موجود امکانات سے آگاہ ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ آئندہ دنوں میں ہونے والی ملاقاتوں کے سلسلے میں صرف سفارت کاری کے لیے اہم موضوعات پر بات نہیں ہوگی بلکہ پاکستان کی اقتصادی ترقی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اُس کے کردار پر بھی بات ہوگی۔

کامران بخاری نے کہا کہ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی اپنی استعداد کتنی ہے۔ اگر سرمایہ کاری کے نقطہٴ نظر سے دیکھا جائے تو کوئی بھی آجر جب کسی جگہ پیسے لگاتا ہے تو یہ دیکھتا ہے کہ اس کا returnکیا ہوگا۔پاکستان میں ٹیکسوں کی پالیسی ، سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں، بجلی کی قلت، بدعنوانی اور بنیادی ڈھانچے کے مسائل ہیں، اور اُن سب سے تو خود پاکستان کو عہدہ برآ ہونے کی ضرورت ہے۔

تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG