رسائی کے لنکس

امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں ریڈ لائنز کو از سرِ نو مرتب کر رہا ہے؟


امریکی صدر ٹرمپ قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
امریکی صدر ٹرمپ قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

اگرچہ پاکستانی حکومت کی جانب سے فی الحال کوئی واضح رد عمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم پاکستان میں اسے ایک واضح دھمکی کے طور پر لیا جارہا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے پیر کے روز قومی سلامتی سے متعلق نئی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کے حوالے سے اپنی پالیسی واضح کر دی ہے جس میں اُنہوں نے بھارت کو ایک کلیدی عالمی طاقت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امریکہ کا اسٹریٹجک اور دفاعی شراکت دار ہے جبکہ اُنہوں نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کرے۔

بھارت کے حوالے سے اُنہوں نے کہا کہ امریکہ بھارت، جاپان اور آسٹریلیہ کے ساتھ چار ملکی تعاون میں اضافے کا خواہشمند ہے۔ قومی سلامتی کی دستاویز میں پہلی مرتبہ اس چار ملکی تعاون میں اضافے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نئے اشتراک عمل کا مقصد چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا ہے۔

ہر امریکی صدر کی انتظامیہ قومی سلامتی سے متعلق اپنی پالیسی پر مبنی دستاویز کانگریس کو پیش کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ صدر ٹرمپ کی اس دستاویز میں بھارت کے حوالے سے پہلی مرتبہ ’انڈو پیسفک‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے ۔

دستاویز میں چین اور روس کو جارحانہ قوتیں قرار دیا گیا ہےاور کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک امریکی اثرورسوخ ، اقدار اور دولت کو چیلنج کر رہی ہیں۔

صدر ٹرمپ نے اس دستاویز کے خدوخال بتاتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ امریکہ کو بدستور پاکستان کی سرزمین سے کارروائیاں کرنے والے غیر ریاستی دہشت گردوں کی طرف سے شدید خطرات کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اُنہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان فوجی محاذآرائی کے خدشات موجود ہیں اور اس بات کا خطرہ ہے کہ کہیں یہ محاذ آرائی جوہری جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے۔ اُنہوں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے جوہری اثاثوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوششیں جاری رکھے۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ ہر سال پاکستان کو خطیر مالی رقوم فراہم کرتا ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ شراکت جاری رکھنے کا خواہشمند ہے۔ تاہم اس کیلئے پاکستان کو اپنی سرزمین سے غیر ریاستی دہشت گردوں کو مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا۔

جنوبی ایشائی اُمور کے ممتاز تجزیہ کار اور یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے معاون نائب صد ر ڈاکٹر معید یوسف کا کہنا ہے کہ نئی جاری ہونے والی امریکی قومی سلامتی کی پالیسی سے متعلق دستاویز میں پاکستان کے حوالے سے جس انداز کا مؤقف اختیار کیا گیا ہے اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اس بارے میں موجود ریڈ لائینز کو از سرنو مرتب کر رہا ہے۔ اس نئی پالیسی کے نتیجے میں مستقبل قریب میں پاکستان۔امریکہ تعلقات پر منفی اثرات پڑنے کا خدشہ موجود ہے۔ معید یوسف نے کہا کہ اگرچہ پاکستانی حکومت کی جانب سے فی الحال کوئی واضح رد عمل کا اظہار نہیں کیا گیا ہے تاہم پاکستان میں اسے ایک واضح دھمکی کے طور پر لیا جارہا ہے کہ سر دست پاکستان۔ امریکہ تعلقات بہتری کی جانب نہیں جا سکتے اور دونوں ملکوں کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی طرف سے امریکہ کی منشا کے مطابق کارروائیاں نہ کی گئیں تو اب یہ بات بڑی حد تک واضح ہو گئی ہے کہ کسی بڑے ٹارگیٹ کی پاکستان میں موجودگی کے نتیجے میں امریکہ خود اسی نوعیت کی یک طرفہ کارروائی کرے جو اُس نے اسامہ بن لاڈن کے حوالے سے ایبٹ آباد میں تھی۔ تاہم ایسی کارروائی کے نتیجے میں پاکستان کے اندر سے شدید رد عمل کا امکان بھی موجود ہے جس کے نتیجے میں اندرون ملک حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔

جان ہاپکنزاسکول فار ایڈوانسڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مدیحہ افضل نے ایک خصوصی گفتگو میں ہمیں بتایا کہ اُن کے خیال میں قومی سلامتی پالیسی میں جنوبی ایشیا سے متعلق جو حکمت عملی اختیار کی گئی ہے یہ اُس پالیسی سے بالکل مختلف نہیں ہے جس کا اعلان گزشتہ اگست میں وائٹ ہاؤس نے کیا تھا۔ تاہم فرق صرف اتنا ہے کہ اگست میں جاری کی گئی پالیسی میں پاکستان میں حقانی گروپ کا خاص طور پر ذکر کیا گیا تھا جبکہ قومی سلامتی کی پالیسی میں حقانی گروپ کے براہ راست ذکر کے بجائے دہشت گرد تنظیموں کی بات کی گئی ہے۔ لیکن ڈاکٹر مدیحہ کے خیال میں اشارہ اب بھی حقانی نیٹ ورک کی طرف ہی ہے۔

پاکستان کی طرف سے ممکنہ رد عمل کا ذکر کرتے ہوئے مدیحہ افضل نے کہا کہ پاکستان میں رد عمل یقینی طور پر منفی رہے گا کیونکہ پاکستان کو براہ راست مورد الزام ٹھہرانا اور بھارت کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرنا پاکستان میں ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مالی امداد کے تناظر میں دیکھتے ہوئے سمجھتا ہے کہ مالی امداد کے وعدے کے ذریعے وہ پاکستان سے مطلوبہ تعاون حاصل کر پائے گا۔ لیکن پاکستان کیلئے اب امریکی امداد کی اہمیت پہلے جیسی نہیں رہی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران امریکہ نے طے شدہ مالی امداد بھی مکمل طور پر فراہم نہیں کی ہے اور اب پاکستان کیلئے چین امریکہ کے متبادل کے طور پر زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ لہذا جلد یا بدیر امریکہ کو یہ سمجھنا ہو گا کہ مالی امداد کے وعدے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکیں گے۔

XS
SM
MD
LG