رسائی کے لنکس

امریکہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا: وائٹ ہاؤس کا اردن حملے پر ردعمل


امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان کربی وائٹ ہاؤس میں ایک پریس بریفنگ کے دورن فوٹو اے پی ، 26 جنوری 2024
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان کربی وائٹ ہاؤس میں ایک پریس بریفنگ کے دورن فوٹو اے پی ، 26 جنوری 2024

وائٹ ہاؤس کے مشیر جان کربی نے پیر کو CNN کے ایک پروگرام میں کہا کہ امریکہ اردن میں ایک اڈے پر تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے ڈرون حملے کے جواب میں "انتہائی نتیجہ خیز" جواب دینے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ امریکہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا۔ ہم مشرق وسطیٰ میں وسیع تر تنازع نہیں چاہتے۔

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے پیر کو اس عزم کا اظہار کیا کہ امریکہ ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کے اس ڈرون حملے کے بعد اپنے فوجیوں کے دفاع کے لیے "تمام ضروری اقدامات" کرے گا جس میں تین امریکی فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔

اتوار کو ہونے والا یہ حملہ اکتوبر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد امریکی فوجیوں کے خلاف پہلا ہلاکت خیز حملہ تھا، اور یہ مشرق وسطیٰ میں جاری تناؤ میں کسی ممکنہ بڑے اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔

محکمہ دفاع کا بیان

آسٹن نے پینٹاگان میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ سے ملاقات کے آغاز میں کہا کہ، "میں اردن میں تین بہادر امریکی فوجیوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے والوں کے لیے اپنے دکھ اور برہمی کے اظہار سے آغاز کرنا چاہتا ہوں۔"

آسٹن نے مزید کہا"صدر اور میں امریکی افواج پر حملوں کو برداشت نہیں کریں گے اور ہم امریکہ اور اپنے فوجیوں کے دفاع کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گے۔"

امریکہ اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اردن میں واقع اڈے پر موجود تقریباً 350 فوجی، جسے ٹاور 22 کہا جاتا ہے، ڈرون کو روکنے میں ناکام کیوں رہے۔

صدر جو بائیڈن نے حملے کے لیے ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپوں کو مورد الزام ٹھرایا ہے۔ قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے سی این این کو بتایا کہ بائیڈن "جواب دیں گے۔"لیکن امریکی حملے کی گنجائش یا وقت کے بارے میں فوری طور پر کوئی اشارہ نہیں ملا۔

اتوار کو صدر بائیڈن کا پہلا ردعمل

صدر جو بائیڈن نے کہا کہ امریکہ اردن کے اندر اس ڈرون حملے کے بعد جوابی کارراوئی کرے گا جس میں تین امریکی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔ برسر اقتدار ڈیموکریٹس اورحزب اختلاف کے ریپلکنز دونوں نے جوابی کاروائی پر زوردیا ہے۔

صدر بائیڈن اتوار کے حملے میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے۔فوٹو اےپی 28 جنوری 2024
صدر بائیڈن اتوار کے حملے میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے۔فوٹو اےپی 28 جنوری 2024

صدر نے اپنے پہلے ردعمل میں گزشتہ رات ہونے والے اس حملے کا ذمہ دار ایران کے حمایت یافتہ ملیشیا گروپوں کو قرار دیا تھا۔

اسرائیل اور حماس کی غزہ میں جاری جنگ کے دوران مشرق وسطیٰ میں ملیشیا گروپوں نے گزشتہ کئی ماہ میں امریکی فورسز پر حملے کیے لیکن ایسا پہلی بار ہے کہ کسی حملے میں امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں ۔

صدر جو بائیڈن نے، جو اتوار کو ریاست ساوتھ کیرولائنا جا رہے تھے، ایک چرچ پہنچنے پر اس واقعہ پر قوم سے ایک لمحے کی خاموشی اختیار کرنے کا کہا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ رات مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے لیے ایک مشکل گھڑی تھی۔" ہمیں اس کا ہرصورت جواب دینا چاہیے۔"

حملے کا نشانہ بننے والا ٹاور-22

دو امریکی اہل کاروں نے اردن میں اس فوجی تنصیب کی ٹاور 22 کے نام سے شناخت کی تھی۔

اردن میں ٹاور 22 کے نام سے شناخت کیا جانے والا اڈہ شام کی سرحد کے ساتھ ہے اور اس کا استعمال زیادہ تر ایسے فوجی کرتے ہیں جو اردن کی افواج کے لیے مشورے اور معاونت کے مشن میں شامل ہیں

صدر جو بائیڈن نے اس حملے کے ردعمل میں ایک تحریری بیان میں کہا، امریکہ "اس حملے کے ذمہ داروں کو جواب دے گا اور اس کے لیے وقت اور طریقہ کار کا تعین ہم خود کریں گے۔"۔

دونوں سیاسی پارٹیوں کا ردعمل

امریکی کانگریس میں برسراقتدار ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ امریکہ اس حملے کا مناسب جواب دے گا۔

سینیٹ میں مسلح افواج کی کمیٹی کے چیئرمین جیک ریڈ نے کہا کہ وہ پر اعتماد ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ اس حملے کا جواب سوچی سمجھی اور مناسب کارروائی سے دیےگی۔

ادھر کانگرس کے ریپبلیکنز کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کا طریقہ کار خطے میں امریکہ کے دشمنوں کو حملوں سے باز رکھنے میں ناکام رہا ہے۔

ایوان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیرمین،ریپبلکن مائیکل مکال نے ایک بیان میں کہا کہ اپنے قومی مفادات کی حفاظت کے لیے ہمیں اپنی مشرق وسطی کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

سینیٹر لنزی گراہم نے مزید سخت ردعمل کی بات کرتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا کہ کہ وہ صرف فوجیوں کی ہلاکت کے خلاف جواب کاروائی میں ہی نہیں، بلکہ آئندہ ایس جارحیت کو روکنے کے لیے، ایران کے اندر اہم اہداف کو نشانہ بنائے۔

"عراق میں اسلامی مزاحمت" نامی گروپ کا ذمہ داری کا دعویٰ

امریکی اخبار،واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، "عراق میں اسلامی مزاحمت" نامی عسکریت پسند گروہوں کے ایک اتحاد نے اتوار کو حملے کی ذمہ داری کا دعویٰ کیا ہے جس میں کتائب حزب اللہ، نجابہ اور دیگر ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسند شامل ہیں۔

گروپ کے ایک عہدے دار نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا، "جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ہے، اگر امریکہ اسرائیل کی حمایت جاری رکھتا ہے، تو (لڑائی) میں اضافہ ہو گا۔ خطے میں تمام امریکی مفادات جائز اہداف ہیں اور ہمیں امریکی جوابی (کارروائیوں کی) دھمکیوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں اور شہادت ہمارا انعام ہے۔"

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے یورپ میں مقیم سرگرم کارکن اور دیرالزور 24 میڈیا چینل کے سربراہ عمر ابو لائلہ کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ مشرقی شام میں ایران کے حمایت یافتہ جنگجووں نے امریکی فضائی حملوں کے خدشے کے پیش نظر اپنے ٹھکانے خالی کرنا شروع کر دیے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مایادین اور بوکامال ان جنگجوؤں کے مضبوط مراکز ہیں۔

غزہ میں اسرائیل اور حماس کے عسکریت پسندوں کے درمیان تقریباً چار ماہ تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران ہفتے کی رات کےحملے میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پہلی ہلاکت ہے، حالانکہ امریکی فوجی مشرق وسطیٰ میں متعدد بار گولیوں کی زد میں آ چکے ہیں۔

اس رپورٹ کا کچھ حصہ رائٹرز اور ایسو سی ایٹڈ پریس کی معلومات پر مبنی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG