رسائی کے لنکس

امریکی انتخابات اور تارکین وطن


امریکی ریاست میری لینڈ میں قائم مسلم امریکن ڈیموکریٹک کلب کے مطابق، ریاست کی منٹگمری کاؤنٹی میں تقریباً ایک لاکھ مسلمان بستے ہیں

امریکی صدارتی انتخابات کی گہما گہمی عروج پر ہے اور یہی قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ اگلا امریکی صدر کون ہوگا: ہلری کلنٹن یا ڈونالڈ ٹرمپ؟

’پیو ریسرچ‘ کے مطابق، حالیہ انتخابات امریکی تاریخ کے متنوع ترین انتخابات ہیں جہاں 31 فیصد ووٹر غیر سفید فام ہیں، جبکہ عام قومی جائزوں کے مطابق، اس وقت بھی تقریباً 20 فیصد امریکی ووٹر اسی تذبذب میں ہیں کہ ووٹ کسے دیں۔ غیر یقینی صورتحال میں مبتلا ووٹروں کی یہ تعداد پچھلے الیکشن کے مقابلے میں تین گناہ زیادہ ہے۔

امریکی ریاست میری لینڈ میں قائم مسلم امریکن ڈیموکریٹک کلب کے مطابق، ریاست کی منٹگمری کاؤنٹی میں تقریباً ایک لاکھ مسلمان بستے ہیں، جہاں مسلم امریکن ڈیموکریٹک کلب اور انڈین امریکن ڈیموکریٹک کلب نے یہاں بسنے والے دوسری کمینوٹیز کے ساتھ مل کر کانگریس میں جان ڈیلینے کو حالیہ الیکشن کے بارے میں گفت و شنید کے لیے مدعو کیا۔

یہ پہلا موقع تھا کہ ریاست میری لینڈ کی منٹگمری کاؤنٹی میں مسلمان کمیونٹی، جس میں بڑی تعداد میں پاکستانی بھی شامل ہیں، بھارتی کمیونٹی کے ساتھ مل کر سیاسی طور پر متحد ہو کر آگے آئی ہے۔ مسلم ڈیموکریٹک کلب کے حمزہ خان نے کہا کہ ان انتخابات میں تارکین وطن، چاہے وہ کسی بھی ملک یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، اکٹھے ہو کر ایک سیاسی قوت بن رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے باوجود یہاں ایک پاکستانی جس کا تعلق لاہور سے ہے اور ایک بھارتی جس کا تعلق دہلی سے ہے، مل کر اور دوسری تارکین وطن کمیونٹیز کے ساتھ کھڑے ہیں جس کا مقصد یہاں امریکہ میں جمہوریت کو مضبوط بنانا اور اپنے مستقبل کو بہتر کرنا ہے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم ساتھ مل کر چلیں۔ انڈین ڈیموکریٹک کلب کی شروتی بھٹناگر نے کہا کہ حالیہ الیکشن میں یہ نہایت ضروری ہے کہ تمام تارکین وطن یک آواز ہو کر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں۔

اس موقع پر مسلمان اور ہندو کمیونٹی کے ساتھ ساتھ انڈونیشی، ایرانی اور بنگلہ دیشی نژاد امریکیوں کی نمائندگی بھی شامل رہی، جہاں کانگریس مین جان ڈیلینے نے امریکہ میں تارکین وطن اور خاص طور پر مسلمانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ’’کسی ایک شخص کے خیالات اور الفاظ تمام امریکیوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔ ہمارا ملک تارکین وطن نے مل کر بنایا تھا جو یہاں امریکی خواب کا حصہ بننے آئے تھے۔ جہاں وہ اپنے مذہب اور روایات پر آزادی سے عمل کرسکیں اور اس پر فخر کر سکیں۔ نا ہی میں اور نا ہی زیادہ تر امریکی اس پر کوئی دوسری رائے رکھتے ہیں‘‘۔

دوسری طرف، حالیہ قومی جائزوں کے مطابق، ڈونالڈ ٹرمپ کے لیے تارکین وطن اور خواتین کے ووٹ شاید کچھ کم ہوئے ہیں۔ لیکن، ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں کوئی قابل ذکر کمی نہیں آئی اور یہی وجہ ہے کہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نومبر 8 سے قبل یہ کہنا مشکل ہےکہ کس امیدوار کا پلڑا بھاری ہے۔

XS
SM
MD
LG