رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: نائین الیون حملے، دہشت گردوں کے خلاف نیا مقدمہ


اخبار ’کرسچین سائینس مانِٹر ‘کہتا ہے کہ یہ کارروائی متوقع تھی، لیکن اوباما انتظامیہ کے اُس مؤقف کے بالکل برعکس ہے جو اُس نے اقتدار سنبھالتے وقت اختیار کیا تھا

امریکی محکمہٴ دفاع نے فیصلہ کیا ہے کہ نائن الیون کے سب سےبڑے ملزم خالد شیخ محمد اور اُن کے چار ساتھیوں پر اُن کے اُس کردار پر دوبارہ مقدمہ چلایا جائے، جو اُنھوں نے امریکہ پر تاریخ کے خوفناک ترین دہشت گردانہ حملے میں ادا کیا تھا۔

گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں میں اِن پانچ افراد کے شرکت کے بارے میں فردِ جرم باقاعدہ طور پر کیوبا میں گوانتانامو کے فوجی اڈے کے ایک ملٹری کمیشن کے سامنے پیش کی گئی۔

اخبار ’کرسچین سائینس مانِٹر ‘کہتا ہے کہ یہ کارروائی متوقع تھی، لیکن اوباما انتظامیہ کے لیے اُس کے اُس مؤقف کے بالکل برعکس ہے جو اُس نے اقتدار سنبھالتے وقت اختیار کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ اُس کے بدلے اُن پر یہ مقدمہ نیو یارک کی ایک سویلین عدالت میں چلایا جائے گا۔

یہ کارروائی اِس وجہ سے منسوخ کرنی پڑی کیونکہ، کانگریس نے گوانتانامو میں نظربند قیدیوں کو امریکہ کی سرزمین پر منتقل کرنے یا یہاں اُن پر مقدمہ چلانے کی مخالفت کی تھی۔

’انٹرنیشنل ہرالڈ ٹربیون‘میں امریکہ کے عام انتخابات میں مسلمان ووٹروں کی اہمیت پر ایک تجزیاتی رپورٹ میں پروفیسر فردین سنزئی کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ امریکی مسلمان تعداد کے اعتبار سے قومی آبادی کا بہت چھوٹا سا حصہ ہیں، وہ امریکہ کی اُن ریاستوں میں آباد ہیں جہاں کے ووٹر کبھی ایک پارٹی کی حمایت کرتے ہیں، کبھی دوسری کی۔ اِن ریاستوں میں مشی گن، اوہائیو، ورجینیا، پین سلوانیا اور فلوریڈا شامل ہیں۔

مضمون نگار کا کہنا ہے کہ ری پبلیکن صدارتی امیدواروں نے اپنے جوشِ خطابت میں مسلمانوں کی طرف جو معاندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے، اُس کی وجہ سے اور نائن الیون کے بعد کے’ اسلاموفوبیا‘ نے مسلمان برادری کو سیاست میں کودنے پر مجبور کردیا ہے۔

مضمون نگار کا دونوں پارٹیوں کے سیاست دانوں کو مشورہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو نظر انداز کرنے کے بجائے اُن کے ساتھ میل جول رکھیں، کیونکہ ایک ایسے معاشرے کے لیے جو رواداری اور مذہبی آزادی پر فخر کرتا ہے، کسی مخصوص معاندانہ رویے کو ہوا دینا غیر امریکی حرکت شمار ہوگی۔

’نیو یارک ٹائمز‘ کے صفحات پر افغانستان کے مستقبل پر کئی ماہرین کی آرا چھپی ہیں جِن میں سنہ 2014 کےبعد کے منظرنامے کا کچھ نقشہ کھینچا گیا ہے۔’سینٹر فار نیو امریکن سکیورٹی ‘کے ایک فیلو، اینڈریو ایکسم کا کہنا ہے کہ کچھ امریکی فوجیں افغانستان میں سنہ 2014کے بعد بھی موجود رہیں گی۔

ایسی وجوہات ہیں جِن کی بنا پر یہ توقع کی جارہی ہے کہ امریکی فوج کی اچھی خاصی نفری کئی سال تک اُس ملک میں موجود رہے گی۔

معروف تجزیہ نگار ڈیوڈ اگنی ٹیئس نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں انکشاف کیا ہے کہ صدر اوباما نے اشارہ دیا ہے کہ امریکہ کو ایران کا ایک سویلین جوہری پروگرام قابلِ قبول ہوگا، بشرطیکہ رہبرِ اعلیٰ علی خامنہ اِی اپنے اِس اعلانیہ دعوے کا ثبوت پہنچائیں کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار نہیں بنائے گا۔

اُن کے بقول، یہ زبانی پیغام اُنھوں نے ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان کی معرفت بھیجا تھا جب اُن کی سیئول میں اُن سےدو گھنٹے طویل ملاقات ہوئی تھی اور مسٹر اوباما نے اُنھیں ایرانیوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت پر زور دیا تھا کہ اُنھیں ایک پُر امن تصفیہ قبول کرنا چاہیئے اور اُنھیں مذاکرات کا جو موقع دیا ہے اُس سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔

’لاس انجلیس ٹائمز‘ کی ایک سرخی ہے کہ اگر آپ اِس خیال میں ہیں کہ سعودی عرب بتدریج اکیسویں یا بیسویں صدی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہے تو یہ آپ کا خیالِ خام ہے، کیونکہ کھیلوں کے وزیر شہزادہ نواف فیصل کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سرِ دست اولمپک یا کسی اور بین الاقوامی چمپین شپ میں کوئی سعودی خواتین نہیں بھیجی جارہی ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ سعودی عرب عورتوں پر ظالمانہ پابندیاں لگانے کے لیے بدنام ہے ، وہاں خواتین کے لیے موٹر کار چلانا منع ہے۔

’نیو یارک پوسٹ‘ کی ایک خبر کہ 86سالہ جرمن خاتوں اِس عمر میں بھی کئی کرتب اُسی فُرتی اور چابک دستی کے ساتھ دکھا سکتی ہیں جس طرح وہ جوانی میں کیا کرتی تھیں۔ جوہانہ الٹی قلابازیاں کھا سکتی ہے، اپنے ہاتھوں پر چل سکتی ہے، سر کے بَل کھڑی ہو سکتی ہے اور تقریباً روزانہ پیریلیل بارز پر ورزش کرتی ہیں۔

’ہیوسٹن کرانیکل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق سالٹ لیک سٹی کی 101سالہ خاتون نے پیرا گلائیڈ کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے اور گنیس عالمی ریکارڈ میں اُس کا نام پیراگلائیڈ کرنے والی معمر ترین خاتون کے طور پر درج کیا گیا ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG