رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: امریکی شہروں میں دولت کے ارتکاز کے خلاف مظاہرے


امریکی اخبارات سے: امریکی شہروں میں دولت کے ارتکاز کے خلاف مظاہرے
امریکی اخبارات سے: امریکی شہروں میں دولت کے ارتکاز کے خلاف مظاہرے

نیو یارک ، واشنگٹن اور دوسرے امریکی شہروں میں احتجاجی مظاہرین کی بڑھتی ہوئی تعداد پر نیو یارک ٹائمز اخبار ایک ادارئے میں کہتا ہےکہ عادی معترضوں کو شکائت ہے کہ ان مظاہرین کے پاس نہ تو کوئی واضح پیغا م ہے اور نہ مسائل کے حل کا کوئی مخصوص نسخہ۔لیکن اخبار کہتا ہے ۔ کہ ان کے پیغام اور نسخے سے ہر وہ شخص باخبر ہوگا جس نے قومی معیشت کی اس کساد بازاری پر نظر رکھی ہے ۔ جس نے متوسّط طبقے کو کنگال کر دیا ہے لیکن جس نے صاحب ثروت لوگوں کو اور خوشحال کر دیا ہے۔اخبار کہتا ہے ۔ کہ مشکل یہ ہے کہ واشنگٹن میں اس کی طرف کوئی بھی توجّہ نہیں دے رہا ۔

ان احتجاجی مظاہروں کا پیغام یہ ہے۔ کہ آمدنیوں کی ناہمواریوں کی وجہ سے متوسّط طبقہ پس رہا ہے۔غریبوں اور مفلسوں کی صفیں پھیلتی جا رہی ہیں۔ اور ایک ایسا مستقل مظلوم طبقہ پیدا ہو رہا ہے۔ جو تندرست ہے اور کام کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن بے روزگار ہے۔ ایک طرح سے یہ احتجاجی مظاہرین ، جن کی اکثریت نو جوانوں پر مشتمل ہے،محرومیوں کی شکار ایک پوری نسل کی نمائندگی کر رہا ہے۔ کالج کے سند یافتہ گریجویٹوں میں بے روزگاری کی شرح 9.6 فی صد ہے اور ہائی سکول گریجویٹوں میں 21.6 فی صد ۔یہ مظاہرے محض نو جوانوں کی نمائندگی نہیں کرتے، بلکہ اس کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکی معیشت جس نہج پر چل رہی ہے وہ بیشتر امریکیوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ اور وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ضابطے وضع کرنے والوں اور منتخب عہدیداروں کی ملی بھگت سے مالیاتی شُعبہ پھول کر کُپّا بن گیا۔اور قرضوں کی بھر مار نے بالآخرجب اپنا رنگ دکھایا تو اس وقت تک اس شعبے نے بھی خوب ہاتھ رنگے اور منافع کمایاجب کہ کروڑوں امریکیوں کا روزگار جاتا رہا۔ ان کی آمدنیاں ۔بچائی ہوئی رقمیں اور گھر ان کے ہاتھ سے جاتے رہے۔ اور حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ امریکیوں کا انصاف اور بحالی پر سے اعتماد اُٹھ گیا ۔ آغاز پر ہونے والی اس بے انصافی میں اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ بیل آؤٹ اور وال سٹریٹ سے اپنے انتخاب کے لئے نقدی کی بھیک مانگنے والے منتخب عہدہداروں نے پوری کی۔ اخبار کہتا ہے کہ یہ وہ زہریلا مرکّب ہے جس نے بنکوں اور بنکاروں کی سیاسی طاقت کو مستحکم کر دیا ہے ۔ جب کہ عام امریکی پس رہاہے۔

اخبار کہتا ہے کہ جب احتجاجی مظاہرین دعوےٗ کرتے ہیں کہ وہ 99 فی صد امریکیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تو ان کا اشارہ آج کل کے انتہائی غیر مساویانہ معاشرے میں آمدنیوں کے ارتکاز کی طرف ہے پچھلے چند برسوں کے دوران کارپوریٹ شُعبے ( بالفاظ دیگر ارب پتیوں ) کے منافعے 1950 کے بعد سے انتہائی حد چھُو چکے ہیں۔ جب کہ اسی دوران مزدوروں کا حصّہ کم ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ لہٰذا یہ کوئی تعجّب کی بات نہیں کہ وال سٹریٹ عوام کی بےزاری کا ہدف بن گیا ہے۔اخبار کہتا ہے کہ قانون سازی مظاہرین کا کام نہیں۔ یہ کام قوم کے لیڈروں کا ہے۔ اگر انہوں نے یہ ذمّہ داری نبھائی ہوتی تو جلسے جلوسوں کی نوبت نہ آتی۔ اب چونکہ انہوں نے اپنا فرض ادا نہیں کیا۔ اس لئے اپنی شکایات کا برملا اظہار بذات خود اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وال سٹریٹ کے ان طور طریقوں کی طرف واپس جانے کے خلاف پہلی دفاعی دیوار ہے جن کی وجہ سے قوم ایک اقتصادی بحران میں مبتلا ہےاور جس میں سے اس کو ابھی نکالنا باقی ہے۔

۔ شکاگو ٹریبیون میں رائیٹر ز کی ایک خبر کے مطابق پاکستان کی تحریک طالبان نے کہا ہے کہ وہ امن مذاکرات کی اس تجویز پر غور کرےگی جو کل جماعتی کانفرنس کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔ پاکستانی طالبان کے ایک رہنما مولوی وصیع الرحمان محسود کے حوالے سے بتایا گیا ہےکہ طالبان کی مجلس شوریٰ فیصلہ کرے گی کہ حکومت اور فوج کے ساتھ کب مذاکرات شروع کئے جا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس کے لئے دنیائے عرب میں سے بھی ایسے ملکوں کو شامل کرنا ہوگا۔ جن پر وہ اعتماد کرتے ہیں۔ مثلاً سعودی عرب۔۔۔ تحریک طالبان پاکستان جو القاعدہ کے بہت قریب ہے 2007 میں قائم ہوئی تھی ، جو پاکستان کی عسکریت پسند تنظیموں کا اتّحاد ہے اور جس پر پورے پاکستان میں بم دہماکے کرانے کا الزام ہے۔ شکاگو ٹریبیون کہتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مصالحت کسی کوشش کی صورت میں واشنگٹن کی ناراضگی یقینی ہے۔ 2007 میں امریکہ نے تحریک طالبان پاکستان کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں ڈال دیا تھا۔اور اس کے دو لیڈروں کی گرفتاری کے لئے معلومات فرہم کرنے والوں کے لئے انعام مقرّر کیا تھا

۔ پچھلے ہفتے چین نے ایک خلائی لیباریٹری کامیابی کے ساتھ مدار میں بھیجی۔ اس معرکے پر چین کو مبارکباد دیتے ہوئے اخبار ہُیوسٹن کرانیکل کہتا ہے۔ کہ اس لیباریٹری کی مدد سے چین وہ ٹیکنالوجی آ زمائے گا۔ جو ایک سیارچے کو ایک خلائی سٹیشن کے ساتھ جوڑنے میں کام آتی ہے۔ یہ لیباریٹری دو سال تک مدار میں رہے گی۔

اخبار کہتاہے، کہ خلا میں چین کا یہ اہم قدم امریکہ کے لئے لمحہء فکریہ بلکہ لمحہء سپُوٹنِک ہے۔ جو امریکہ کے موجودہ خلائی پروگرام میں ایک نئی رُوح پھونکنے ک اہمیت کو اجاگر کرتا ہے ۔ اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کو اپنے سابقہ کارناموں پر اکتفا کر کے بیٹھے نہیں رہنا چاہئے ۔ بلکہ اس اہم کام کو جاری رکھنا چاہئے۔

XS
SM
MD
LG