رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: قندھار میں ہلاکتوں کا سانحہ


اتوار کو ایک امریکی فوجی کے ہاتھو ں 16 افغان شہریوں کی افسوسناک ہلاکت پر امریکی اخبارات میں مزید ادارئے چھپ رہے ہیں۔ لاس اینجلس ٹائمز کہتا ہے کہ اس سے افغان امریکی تعلقات کو چکرا دینے والا دھچکہ پہنچا ہے ۔ اخبارنے اسے نہ صرف ایک سفارتی تباہی اور ایک دلدوز انسانی سانحہ قرار دیا ہے۔بلکہ صدر حامد کر زئی کے اس الزام کے بعدکہ یہ سب کچھ ارادتاً کیا گیا ہے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ نہ صرف اس بات کی بھر پُور تخقیقات کی جائے کہ یہ کیسے ہوا بلکہ اس کی بھی کہ ایسا کیوں ہونے دیاگیا۔ اخبار کہتا ہے۔ اتوار کے روز مریکی فوجی کی اس حرکت کی طرح ہونے والے ہر ایسے واقعہ کے بعد افغان حکومت کی نگاہ میں امریکی وقار کو دھچکہ پہنچتا ہے۔ افغانستان میں امریکہ کو بڑی مایوسیوں کا سامنا رہا ہے۔ نہ صرف اس وجہ سے کہ افغان عوام دس سال کے غیر ملکی قبضے سے عاجز آ چکے ہیں۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ قبضہ جلد سے جلد ختم ہو بلکہ اس وجہ سے بھی کہ سی بی ایس کے ایک عوامی جائزے کےمطابق ، امریکی عوام کی اکثریت اب یہ باور کرتی ہے کہ افغانستان کی جنگ نے نہ صرف ان کی توقّع سے کہیں زیادہ طُول پکڑا ہے۔ بلکہ اس میں کامیابی بھی نہیں ہوئی ہے۔ ہلاک اور زخمی ہونے والےامریکی اور اتّحادی فوجوں کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی ہے۔ جب کہ ملک میں ایک سِوِ ل معاشرے کی تعمیر نہائت ہی سُست رہی ہے۔ اور کابل کی حکومت کرپشن اور نا اہلی کا شکار ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اتوار کے روز کی طرح کی افسوسناک وارداتیں ناگزیر ہو جاتی ہیں ۔ جب فوج اتنی طویل مدت سے بر سر پیکار ہو۔ کامیابی کی امُید ہی نہ ہو ۔ اور بہت زیادہ فوجیوں کو بار بارمیدان جنگ میں بھیجا جائے۔ اور کُچھ نہ سہی اس سےیہ ضرور ظاہر ہوتا ہےکہ امریکہ افغانستان میں اپنا مشن رفتہ رفتہ ختم کرنے میں حق بجانب ہے اور اسے یہ عمل جلدی لیکن ذمّہ داری اور انسان دوستی کے ساتھ مکمّل کرنا چاہئے۔

اسی موضوع پر کرسچن سائینس مانٹر کہتا ہے، کہ اوباما انتظامیہ کی کوشش ہے کہ سنہء 2014 تک نیٹو کی ذمہ داریوں کو افغان فوجوں کو سونپ دی جایئں ، لیکن ان تازہ ہلاکتوں کی وجہ سے افغان اور امریکی فوج کے مابین مزید تناؤ بڑھ جائےگا اور مسٹر اوباما کی وُہ حکمت عملی بھی متاثّر ہوگی۔ جس کے تحت افغان فوجیں اپنے امریکی رفقائے کار سے جنگی فرائض سنبھالیں گی۔

اخبار کہتا ہے کہ افغانستان کا مسئلہ مسٹر اوباما کی عوامی مقبولیت کی ایک اہم علامت بن گیا ۔ جب سپیشل اوپریشنز فورس نے اوسامہ بن لاد ن کے خلاف کامیاب کاروائی کی۔ لیکن اگر کشیدگیاں اسی طرح بڑھتی رہیں تو اخبار کے خیال میں یہ مسٹر اوبا ما کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کی راہ میں روکاوٹ ثابت ہوگا

قومی سلامتی کے ایک ماہر اینٹھونی کارڈیس من کے حوالے سے اخبار کہتاہے کہ امریکہ کو اس تازہ واقعے سے ماورا دیکھنا پڑے گا۔ اور اُسے اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ اُس کی رواں پالیسی محض ایک دکھاوا بنتی جا رہی ہے ۔ جس کی وجہ سے حالات مزید ابتری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ امریکہ اور اُس کے نیٹو اتّحادیوں نے ، سنہ 2014 تک مکمل طور پر تربیت یافتہ اور سازو سامان سے لیس افغان فوج کو ذمُہ داریاں سونپنے کی جو حکمت عملی بنائی ہے۔ اس کے لئے نہ وقت ہے، نہ پیسہ اور نہ تربیت دینے والا عملہ ۔

بالٹی مور سن میں کام نگار ایچ راتھ من رقم طراز ہیں کہ انٹر نیٹ کی وساطت سے پڑھی جانے والی کتابوں یا اِی بُکس کے پڑھنے والو ں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی ہے ، اور اب نئے ای پیڈ ے بازار میں آنے سے اس تعداد میں یقینی طور پر بے تحاشہ اضافہ ہو جائے گا۔ اور وقت آ گیا ہے جب ملک میں ایک بھر پُور سٹاک والی ایک ڈجِٹل لائیبریری قائم ہونی چاہئے۔ جو اینٹوں اور گارے کی عمارت میں قائٕم لائبریریوں کا ہرگِز متبادل نہیں ہونگی ۔ بلکہ ان میں دستیاب مطالعے کے مواد میں اضافہ کریں گی۔

مضمون نگار کا کہنا ہے کہ ای بُکس نظر نہ آنے والے الیکٹراوں کا مجموعہ ہیں۔ لیکن ا س کے باوجود بچے انہیں دیکھ سکتے ہیں ۔ مثلاً لائیبریرین اور ٹیچر ، ای بُکس کے مناظر کے عکس دیواروں پر دکھا سکتے ہیں۔ اور وُہ مقامی کتابوں پر بات کر سکتے ہیں لوگوں اور ان تاریخی باتوں کا ذکر کر سکتے ہیں،جن سے طلبہ مانُوس ہیں۔

مضمون نگار نےدو الگ الگ قومی ڈجٹل لائیبریریوں کے قیام کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ ایک تو اکتسابی اور ایک پبلک ۔ دونوں تک عوام کو آسانی سے رسائی حاصل ہونی چاہئے ۔ اور اُن میں مُشترکہ مواد موجود ہونا چاہئے۔ الگ الگ طریقوں کی بدولت عالمانہ رسائل اور کثیرالاشاعت کتابوں جیسے امور پر جھگڑوں سے بجاجاسکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG