رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے:افغان صدر کا مطالبہ


’واشنگٹن پوسٹ‘ کا کہنا ہے کہ مسٹر کرزئی کی مطالبات کرنے کی طویل تاریخ ہے جنہیں بین الاقوامی برادری یا تو نظر انداز کر دیتی ہے یا پھر اُن پرآرام آرام سے عمل کرتی ہے

افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے ملک کے دیہی علاقوں سے نیٹو فوجوں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے اور اسی کے ساتھ طالبان نے امریکہ کےساتھ مذاکرات ختم کرنے اعلان کیا ہے۔

اِس پر، ’ لاس انجلس ٹائمز‘ کا کہنا ہے کہ یہ امریکہ کی اُس ملک میں جنگ جاری رکھنے اور امن مذاکرات کی کوششوں کے لئے دوہرا دھچکہ ہے۔اور اس سے جہاں ایک طرف اس مناقشے کے دو اہم فریقوں کےبگڑتے ہوئے مُوڈ کا اندازہ ہوتا ہے وُہاں امریکی قیادت میں قائم اتّحاد کی اس دس سالہ جنگ سے نکل آنے کے منصوبوں میں بڑھتی ہُوئی بد نظمی کی بھی غمّازی ہوتی ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ صدر کرزئی نے سیکیورٹی کی ذمہ داریاں ایک سال قبل ہی افغان فوج کو سونپنے کا جو مطالبہ کیا ہے۔اس پر نیٹو کمانڈروں کا یہ موقّف ہے کہ افغان پولیس اور فوج کو سنہ2014 کے ہدف تک بھی اس کے لئے تیار کرنا بُہت بڑا چیلنج ہے ۔ اس کے باوجود مسٹر کرزئی کو اصرار ہے کہ افغان فوج سیکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے تیار ہے ۔ لیکن امریکی محکمہء دفاع کے ایک سینیئر عُہدہ دار نے کہا ہے کہ مسٹر کرزئی کی تجویز قابل عمل نہیں ہوگی۔

اخبار کہتا ہےکہ ایک طرف قندھار کی ہلاکتو ں پر افغان صدر نے وزیر دفاع لیون پینیٹا کو لعن طعن کیا اور دوسری طرف طالبان نے اپنے ویب سائٹ پر ایک بیان میں صدر کرزئی کو طعنہ دیا کہ وُہ اپنے طور سے امریکہ کی مرضی کے بغیر ایک فیصلہ بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن اُن کا غصّہ امریکی انتظامیہ پر تھا۔ اوراُن کا کہنا تھا کہ اس کی ناقابل قبول شرائط کی وجہ سے انہیں مذاکرات کو منسُوخ کرنے پر مجبُور ہونا پڑا۔

’واشنگٹن پوسٹ‘ کا کہنا ہے کہ مسٹر کرزئی کی مطالبات کرنے کی طویل تاریخ ہے، جنہیں بین الاقوامی برادری یا تو نظر انداز کر دیتی ہے یا پھراُن پرآرام آرام سےعمل کرتی ہے۔ وُہ اس سےپہلے بھی کئی مرتبہ شیر آیا۔ شیر آیا دوڑنا کی صدا لگا چُکے ہیں۔

اگرامریکی فوج دیہی علاقوں سےپیچھےہٹنےکا مطالبہ مانتی ہے تواُسے کم و بیش اُنہی مسائیل کا سامنا ہوگا ، جو 2009 ءمیں اُسے عراق میں پیش آئے تھے جب بغداد نے امریکی فوجوں کی نقل و حرکت اور اختیار پر قدغن لگانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن افغانستان میں اس کا اثر زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہو سکتا ہے ، اُس وقت عراق کی بغاوت کا زور ٹُوٹنے لگا تھا جب کہ افغانستان میں عسکریت پسند ابھی طاقتور ہیں۔ باوجودیکہ اتّحادی فوجوں نے بعض علاقوں میں پیش رفت کی ہے، اس کے علاوہ طالبان لیڈروں کو پاکستان کے اندربرابر پناہ گاہیں حاصل ہیں۔

اُن علاقوں میں جہاں باغیوں کی کثرت ہےچھوٹی چھوٹی فوجی چوکیوں کی موجودگی کو اتّحادی کمانڈر افغان حکومت کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے لئے بُہت اہم سمجھتے ہیں، تاکہ وُہ وہاں اپنے قدم جما سکے، لیکن ملک کے بیشتر علاقوں میں اس مقصد کا حصول ابھی دُور کی بات ہے ۔ کیونکہ افغان فوجیں ابھی ترقّی کی منازل سے گُذر رہی ہیں اور مکمّل طور پر غیر ملکی مالی امداد کی دست نِگر ہیں۔

’نُیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ امریکی محکمہء دفاع کے عہدہ داروں کو اعتراف ہے کہ ابھی مسٹر کرزئی کے مطالبے اور افغان فوج کو تربیت اور مشاورت دینے کے امریکی مقاصد کے درمیان ایک بڑ ی خلیج ہے یہی حال باغیوں کے خلا ف کاروائی کا ہے ، جس کے لئے دیہی علاقوں میں افغانوں کے ساتھ مل کر کام کرنےکا طریقہ وضع کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ بیشتر افغان دیہات ہی میں رہتے ہیں۔ ا امریکی محکمہء دفاع کے ایک عہدہ دار سے جب پُوچھا گیا کہ آیا امریکی فوجوں کو اگر چھاؤنیوں میں منتقل کرنے کی صورت میں یہ کام جاری رکھا جا سکتا ہے، تو اس کا جواب تھا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ممکن ہوگا یا نہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ اب تک افغانستان کا آدھاعلاقہ بین الاقوامی کنٹرول سےنکال کرباقاعدہ طور پر افغانوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔لیکن نیٹو فوجیں برابر بڑی بڑی چھاونیوں سےباہر فرائض انجام دے رہی ہیں اور یہ واضح نہیں ہے کہ انہیں کب وُہاں سے ہٹایا جائے گا ، کیونکہ افغان فوجیں اپنے طور پر اس کام کی اہل نہیں ہیں۔ کانگریس کے نام محکمہءدفاع کی ایک رپور ٹ کے مطابق افغان فوج میں سے 70 فی صد یونٹوں کو میدان جنگ میں ابھی بھی امریکی امداد کی ضرورت ہے۔

طالبان کے ساتھ مذکرات میں نئے تعطّل پراخبار کہتا ہے کہ جنوری کے بعد خصوصی ایلچی مارک گروس من کا اُن کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا ہےاور سب سے بڑی رکاوٹ اعتماد سازی کی پہلی شرط کا پوُرا نہ ہونا ہے، یعنی گواں ٹانمو میں نظر بند پانچ طالبان قیدیوں کو قطر منتقل کر کے وہاں مکان میں نظر بند کرنا ہے ،جس کے عوض باغیوں کی تحویل میں ایک مغربی یرغمالی کو رہا کیا جانا ہے۔

XS
SM
MD
LG