رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: پیٹرول کی قیمتیں


An internally displaced boy looks out of a school at a village outside Damascus, January 28, 2013.
An internally displaced boy looks out of a school at a village outside Damascus, January 28, 2013.

منگل کے دن تیل کے فی بیرل قیمت میں ڈھائی ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور اب امریکہ میں پٹرول کی اوسط قیمت ساڑھے تین ڈالر فی گیلن سے بھی بڑھ چکی ہے

’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہےکہ پٹرولیم مصنوعات کے بڑھتےہوئےدام صدراوباما کےدوبارہ منتخب ہونے کے امکانات پرایک حد تک اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں ایسا ہواہے کہ اس طرح یہ دام بڑھے تو برسر ِاقتدا صدر انتخاب ہار گیا۔ چنانچہ، اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما کو دام بڑھ جانے پر اُتنی ہی تشویش ہےجتنی پٹرول کے عام صارفین کو ۔ وجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے دام بڑھتےہیں صدر کی مقبولیت میں اسی قدرکمی آجاتی ہے۔

خبارکہتا ہے کہ منگل کے روز امریکہ میں پٹرول کی اوسط قیمت ساڑھے تین ڈالر فی گیلن سے ذرا زیادہ تھی ۔ یعنی ایک ہفتہ قبل کے مقابلے میں چھ سینٹ زیادہ اور ایک ماہ قبل کے مقابلے میں 19 سینٹ زیادہ ۔منگل ہی کے دن تیل کے فی بیرل قیمت میں ڈھائی ڈالر اضافہ ہوا اور ایک بیرل 106 ڈالر کا ہوگیا۔

ایران کی جوہری تنصیبات پر ممکنہ اسرائیلی حملے کی وجہ سےتیل کی منڈیوں میں سراسیمگی بڑھتی جا رہی ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ فی بیرل تیل میں ایک ڈالر کا اضافہ ہو جائےتو امریکہ میں پٹرول کے دام تقریباً ڈھائی سینٹ فی گیلن بڑھ جاتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ صدر اوباما کےلئے پٹرول کی قیمت میں اضافہ اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ اس سے معیشت پر منفی اثر مرتّب ہو سکتا ہے۔ کیونکہ، ماہرین کی رائے کےمطابق اگر قیمت فی گیلن چار ڈالر سے بڑھ گئی تو اس سے معیشت سُست پڑ جائے گی۔ جو صدر کے دوبارہ منتخب ہونے کے امکانات پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

ریپبلکن صدارتی نامزدگی دوڑ میں اب جو چار امّید وارباقی رہ گئے ہیں ۔ اُن میں میساچوسیٹس کے سابق گورنر مِٹ رامنی ، سابق سینیٹر رِک سینٹورم ، سابق سپیکر نُیوٹ گِنگرِچ اور رُکن کانگریس ران پال ہیں، جِن کے درمیان سخت مقابلہ جاری ہے اور جیسا کہ اخبار ’اری زونا ری پبلک‘ کہتاہے، اس مقابلے کی شدّت بڑھتی ہی جارہی ہے، جِس میں اب تک سبقت لے جانے والے امیدوار مٹ رامنی کے لئے آنے والااختتام ہفتہ خطر ناک ثابت ہوسکتا ہے،کیونکہ انہوں نے مشی گن کی پرائمری میں کامیابی کو اپنے لئے انتہائی لازمی قرار دیاہے۔ اخبار کا اندازہ ہے کہ اگر وہ وہاں ناکام ہو گئے یا اری زونا ریاست میں ڈگمگا گئے،جہاں رائے عامّہ میں ان کی سبقت گر گئی ہے ۔تو پھر اس دوڑ میں اُن کا برقرار رہنا ایک سوالیہ نِشا ن بن کر رہ جائے گا۔

اس پر ’شکاگو ٹریبیون‘ کے تجزیہ کار بِل پریس کا کہنا ہے کہ مشی گن کے تازہ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق مٹ رامنی پر سابق سینیٹر رک سینٹورم سبقت لے گئے ہیں جِس پر ان کا سوال ہے کہ کیا ری پبلکن ، سینٹورم کو اپنا صدارتی امید وار چننے میں سنجیدہ ہیں۔کیونکہ، ان کی دانست میں وہ نیوٹ گِنگرچ سے بھی بدتر امّید وار ثابت ہونگے ۔ رک سینٹورم بیشتر حلقوں میں خاندانی منصوبہ بندی کی سخت مخالفت کرنے پر وجہ نزاع بنے ہوئے ہیں اور ملک کو درپیش روزگار ، صحت ، تعلیم اور امیگریشن جیسے مسائیل چھوڑ کر سینٹورم کی خطابت کا سارا زور خاندانی منصوبہ بندی کی مخالفت پر ہوتا ہے۔ اور بل پریس کا سوال ہے کہ آیا وُہ صدر کے عُہدے یا پاپائے روم کے عُہدے کا انتخاب لڑ رہے ہیں۔

اخبار ’پٹس برگ پوسٹ گزیٹ‘ کہتا ہے کہ یمن میں جو نیا صدر آیا ہے وہ کسی تبدیلی کا نقیب نہیں ہوگا۔

ہوا یہ ہے کہ سابق صدر علی عبداللہ صالح طبی علاج کے لئے امریکہ میں ہیں اور وہ یہیں رہیں گے اس سے قبل وہ 33 سال بر سر اقتدار رہے اور ان کا شمار دنیا کے خبیثوں میں ہوتا ہے اور جہاں تک اپنے عوام پر تشدّد اور ظلم ڈھانے کا تعلّق ہے تو ان کا موازنہ یا تو زمبابوے کے رابرٹ موگابے سے یا شام کے بشارالاسد سے ہی ہوسکتا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ ان کی جانشین حکومت ان سے مختلف نہیں ہو سکتی۔ کہنے کو تو نائب صدر عبد الرّبو منصور ہادی منگل کے انتخاب میں چنے گئے، جو سننے میں تو اچھا لگتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ واحد امّید وار تھے جن کا انتخاب خود مسٹر صالح نے کیا تھا۔

اخبارکہتا ہے کہ یمن کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تشدّد کے لئے ہمہ تن تیار جتھوں میں بٹی ہوئی ہے۔ دُشمنی شمالی اور جُنوبی یمن کے مابین بمعہ اپے دارالحکومتوں یعنی صناع اور عدن کے برقرار ہے اس میں سُنّی اور شیعہ مسلمان ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انتہا پسند اور اعتدال پسند دونوں وہاں موجود ہیں۔ اوسامہ بن لادن کے خاندان کا تعلّق یمن سے تھا اور سنہ 2000 میں امریکی بحری جہاز یو ایس ایس کول پر عدن ہی کی بندر گاہ سے حملہ ہوا تھا۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG