رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: بھارت کی افغان پالیسی


’امریکہ افغانستان میں بھارتی کردار کی اہمیت سے آگاہ ہے۔ اسی لیے، امریکی وزیرِدفاع لیون پنیٹا نے اپنے حالیہ دورہ بھارت کے دوران افغانستان میں نئی دہلی کے سرگرمیوں کی تعریف کی تھی‘

اخبار'وال اسٹریٹ جرنل' نے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے بھارت کی افغان پالیسی کی تعریف پہ بھارتی حکومت کے کان کھڑے ہونے چاہئیں اور اسے اپنی افغان پالیسی پر نظرِ ثانی کرنی چاہیئے۔

یاد رہے کہ رواں ماہ اپنے ایک بیان میں افغان طالبان نے افغانستان میں سرگرم کردار ادا کرنے کے امریکی مطالبات پورے نہ کرنے پر بھارت کی تعریف کی تھی۔

'وال اسٹریٹ جرنل' نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ امریکہ افغانستان میں بھارتی کردار کی اہمیت سے آگاہ ہے۔ اسی لیے امریکی وزیرِدفاع لیون پنیٹا نے اپنے حالیہ دورہ بھارت کے دوران افغانستان میں نئی دہلی کے سرگرمیوں کی تعریف کی تھی۔

اخبار کے بقول، معلوم ہوتا ہےکہ افغان طالبان کو بھی بھارت کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نئی دہلی کو براہِ راست مخاطب کرنے کا فیصلہ کیا۔

'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ افغانستان میں تعمیرِ نو کی سرگرمیوں کے لیے بھارت اب تک دو ارب ڈالر کی امداد دے چکا ہے جب کہ بھارتی نجی شعبے کی افغانستان میں مجوزہ سرمایہ کاری کا حجم 10 ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔ بھارت کی جانب سے افغانستان کے لیے مزید امداد اور مقامی سیکیورٹی فورسز کو تربیت فراہم کرنے کے نئے منصوبوں کے نتیجے میں افغانستان مستحکم ہوگا اور نتیجتاً طالبان کی تحریک کمزور پڑے گی۔

اخبار لکھتا ہے کہ طالبان اس خطرے سے بخوبی آگاہ ہیں اور اسی لیے اس بارے میں ان کی پریشانی قابلِ فہم ہے۔ افغانستان میں بھارت کی ان تمام تر امدادی سرگرمیوں کی اہمیت اس لیے بھی دوچند ہوجاتی ہے کیوں کہ 2010ء میں کیے جانے والے ایک عالمی سروے کے مطابق بھارت افغان شہریوں کے لیے سب سے پسندیدہ ملک ہے۔

'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ امریکہ کی خواہش ہےکہ افغانستان سے اس کی افواج کے انخلا سے قبل اور بعد بھارت وہاں اپنی موجودگی اور سرگرمیاں بڑھائے تاکہ خطے کے استحکام کو یقینی بنایا جاسکے۔ لیکن بھارت اور پاکستان کی ازلی مخاصمت اور باہمی عدم اعتماد کے باعث امریکہ ماضی میں نئی دہلی کو افغانستان میں سرگرم کردار ادا کرنے کی دعوت دینے سے احتراز کرتا آیا تھا کہ مبادا کہیں پاکستان ناراض نہ ہوجائے۔

'وال اسٹریٹ جرنل' کے مضمون نگار کے بقول طالبان کے لیے یہ ایک آئیڈیل صورتِ حال تھی۔ لیکن پاکستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے بعد اب امریکہ نے کھل کر افغانستان میں بھارتی کردار کی حوصلہ افزائی شروع کردی ہے۔ اخبار کے مطابق امریکہ افغانستان میں بھارتی کردار کا اس شدت سے خواہاں ہے کہ وہ نئی دہلی کے ایران کے ساتھ موجود قریبی تعلقات سے بھی صرفِ نظر کرنے پر آمادہ ہوگیا ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ یہ بدلتی ہوئی صورتِ حال طالبان کے لیے ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں اور اسی لیے انہوں نے براہِ راست بھارت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ امریکی خوشنودی کے لیے خود کو ہلاکت میں ڈالنے سے باز رہے۔

لیکن 'وال اسٹریٹ جرنل' کے مضمون نگار کے بقول اصل مسئلہ یہ ہےکہ عالمی محاذ آرائیوں سے خود کو دور رکھنے کی دیرینہ پالیسی، معیشت کی سست رفتاری اور داخلی سیاسی مجبوریوں کے باعث بھارتی حکومت خود بھی افغانستان میں کوئی سرگرم کردار ادا کرنے سے گریز کر رہی ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ افغان مسئلے کےحل میں بھارتی کردار کو ضروری خیال کرتا ہے اور اسے پاکستان سے زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔ اگر بھارت نے اس پیش کش سے فائدہ نہ اٹھایا تو وہ ایک تاریخی موقع ضائع کرے گا اور امریکہ اور عام افغانوں کی نظر میں بھی اپنی ساکھ کھو بیٹھے گا۔

اخبار 'بوسٹن گلوب' نے امریکہ کے مختلف مسائل اور معاملات کے بارے میں کوئی واضح موقف اور پالیسی دینے میں ناکامی پر ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار مٹ رومنی پر تنقید کی ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ 10 سال قبل 2002ء میں جب رومنی ریاست میساچوسٹس کے گورنر کا انتخاب لڑ رہے تھے تو انہوں مختلف مسائل پر تفصیل سے بات کی تھی اور ان کے حل کے لیے مدلل اور قابلِ عمل منصوبے پیش کیے تھے۔

لیکن اب کی بار جب وہ ایک کہیں زیادہ بڑی ذمہ داری یعنی صدرِ امریکہ کا انتخاب لڑنےوالے ہیں، رومنی اہم ترین ملکی مسائل کے حل کے بارے میں پوچھے گئے سوالات سے عموماً یا تو کنی کترا جاتے ہیں یا پھر جواب میں آئیں بائیں شائیں کرکے رہ جاتے ہیں۔

'بوسٹن گلوب' کے مضمون نگار نے اپنے موقف کہ حق میں کئی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ مضمون نگار کے بقول رومنی نے اقتدار میں آنے کے بعد انکم ٹیکس کی شرح میں 20 فی صد کمی کرنے کا وعدہ کیا ہے جس کے نتیجے میں امریکی خزانے کو آئندہ 10 برسوں میں 50 ارب ڈالر کا خسارہ برداشت کرنا ہوگا۔

ساتھ ہی ساتھ رومنی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ امریکی بجٹ کو متوازن بنائیں گے جسے اس وقت بدترین خسارے کا سامنا ہے۔ لیکن رومنی کے پاس اس سوال کا کوئی واضح جواب موجود نہیں کہ وہ آمدن میں 50 ارب ڈالر کی مزید کمی کرکے کھربوں ڈالر کا بجٹ خسارہ کیسے پورا کریں گے؟

اخبار لکھتا ہے کہ رومنی نے اقتدار میں آنے کے بعد سرکاری اخراجات میں بھی 20 فی صد تک کمی لانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن انہوں نے اب تک جن مدات میں کٹوتیاں گنوائی ہیں ان کے ذریعے اخراجات میں صرف چھ فی صد کمی آئےگی۔ باقی کے 14 فی صد اخراجات کیوں کر کم کیے جائیں گے، اس بارے میں رومنی اور ان کے مشیر کچھ بتانے سے عاری ہیں۔

'بوسٹن گلوب' لکھتا ہے کہ شاید مستقبل کی حکمتِ عملی کے بارے میں رومنی اس لیے کوئی واضح موقف نہیں اپنا رہے کیوں کہ وہ اپنے سیاسی اہداف قبل از وقت مشتہر نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ امریکہ کے اہم مسائل کا صدر اوباما سے بہتر حل تجویز نہ کرکے وہ خود ماضی کی داستان بن سکتے ہیں۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG