رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: طالبان سے مذاکرات میں پیش رفت؟


امریکی اخبارات سے: طالبان سے مذاکرات میں پیش رفت؟
امریکی اخبارات سے: طالبان سے مذاکرات میں پیش رفت؟

واشنگٹن پوسٹ کی اطلاع ہے کہ افغان طالبان کےساتھ مذاکرات کا عمل کُچھ آگے بڑھاہے۔ ایک سعودی اخبار شرق وسط نے طالبان کے ایک اعلیٰ مشیر قاری یوسف احمدی سے پُوچھا تھا کہ اگر طالبان افغانستان پر دوبارہ قابض ہو گئے تو کیا وہ اس صورت میں القاعدہ کی دوبارہ میزبانی کریں گے ۔ تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا ۔ القاعدہ کے لیڈروں کو اب افغانستان میں کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔

بعض عہدہ داروں کے نزدیک یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ سعودی عرب اورامریکہ کے اس کلیدی مقصد سے اتفاق کیا گیا ہے کہ افغانستان پر امن مذاکرات ہوں۔

لیکن اس مشیر نے مذاکرات کے لیئے یہ شرط دہرائی کہ امریکہ کو پہلے افغانستان پر اپنے قبضہ ختم کرنا ہوگا اور کہا کہ امریکہ طالبان کو طاقت کے بل بوتے پر ختم کرنے میں ناکامی کے بعد مذاکرات پر آمادہ ہو گیا ہے

مذاکرات کے حق میں طالبان کے ترجمان کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے ۔ جب امریکی کمانڈر ، امریکی فوجوں کے ہاتھوں قرآن کے اتّفاقیہ نذر آتش ہونے کی واردات کے بعد ، مشتعل افغان عوام سے نمٹ رہے ہیں اخبار کہتا ہے کہ اس واقعے کی وجہ سے افغانستان میں امریکہ کی پوزیشن اور بھی غیر یقینی ہو گئی ہے۔ اور اس قضئے کا کوئی سیاسی تصفیہ کرنا اور بھی زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ مسٹر احمدی نے جن چند مراعات کی یقین دہانی کرائی ہے ۔ ان میں اسلامی تعلیمات کے مطابق عورتوں کی تعلیم کی اجازت اور بعض سیٹی لائٹ ٹیلی وژن چینلز قائم رہنے کی اجازت شامل ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ مسٹر احمدی کا بیان اس بات کی واضح علامت ہے کہ امریکی محکمہء خارجہ کے نمائندے مارک گروس من کی قیادت میں مذاکرات کے اس عمل میں کُچھ پیش رفت ہو رہی ہے۔

وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابقافغانستان میں امن و امان کی ذمہ داری افغان افواج کو سونپنے کا جو منصوبہ بنایا تھا۔ اس میں مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔ کیونکہ امریکی فوجوں پر افغان فوجیوں کی طرف سے متعدد خوفناک حملوں کے بعد، جس میں افغان ہوائی اڈے پر بمبار کار کا حملہ شامل ہے، امریکہ اور اس کے اتحادیوں نےسینکڑوں فوجی اور سویلین مشیر کابل سے ہٹا لئئے ہیں۔

امریکہ ۔ برطانیہ اور فرانس نے اتوار کے روز وُہ مشیر واپس بلا لئے جو افغان حکوم کی امدااد کے لئے متعیّن تھے۔ یہ کاروائی پچھلے ہفتے بگرام کے ہوائی اڈے پر قرآن کے نسخے جلانے کی واردات کے بعد بد امنی کے تناظر میں کی گئی ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ ان مشیروں کے ہٹائے جانے کی وجہ سےافغان وزارتیں اپنے روز مرّہ کے کام میں ان ماہرانہ مشوروں سے محروم ہو گئئ ہیں۔ اور اس سے بین الاقوامی برادری کو ایک خاص پیغام مل رہا ہے۔

ادھر ایبٹ آباد کے اس مکان کو پاکستان نے راتو ں رات مسما ر کر کے اس کا نام و نشان مٹا دیا ہے، جہاں امیریکی سپیشیل فورسز نے پچھلے سال جون کے مہینے میں ہلاک کر دیا تھا۔نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ کہ پاکستان کی فوج کو سپیشل فورسز کے اس خفیہ حملے پر کڑی تنوید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ خاص طور پر آئی ایس آئی کو، جس کے سربراہ جنرل پاشا نے تحقیقاتی کمیشن کو بتایا تھا کہ ان کےجاسوس ایبٹ آباد میں بن لادن کی موجودگی سے قطعی طور پر بے خبر تھے

یہاں واشنگٹن میں امریکی عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ بن لادن کے احاطے کو مسمار کرنے کے بارے میں انہیں پہلے سے کوئی علم نہیں تھا ۔ ایک عہدہ دار نے بتایاکہ بن لادن کی ہلاکت کی برسی آنے والی ہےاور پاکستانی نہیں چاہتے تھے کہ یہ جگہ لوگوں کی توجّہ کا مرکز بنی رہے۔اس عہدہ دار نے اپنی پہچان صیغہء راز میں رکھنے کی شرط پر کہ ایبٹ باد میں اس عمارت کے گرانے سے اُن کوششوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ جو نومبر میں ایک نیٹو فضائی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد عملی طور پر منجمد پاک امریکی تعلقات میں پھر گرمجوشی لانے کے لئے کی جارہی ہیں۔

نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ ایبٹ آباد کے مکان کی مالیت دس لاکھ ڈالر تھی۔ جس میں پاکستانی تفتیش کاروں کے بقول کُل 27 افراد رہتے تھے اور اس کے دس کمروں میں بن لادن کے علاوہ ان کی تین بیویاں اور16 بچے رہتے تھے۔

XS
SM
MD
LG