رسائی کے لنکس

امریکہ کے قومی قرض کا بحران: ری پبلیکن اور ڈیموکریٹک دونوں پارٹیاں ذمہ دارہیں


اسپیکر، جان بینر
اسپیکر، جان بینر

امریکی اخبارات سے: جہاں تک قرض کا تعلق ہے وہ تو کئی عشروں سے موجود رہا ہے۔ لیکن 2001ء سے ٹیکسوں میں جو چھوٹ دی گئی اور 11ستمبر کے بعد سے جو اقتصادی تنزل ہوا ہے اُس کے بعد ہر ایک کو اِس مسئلے میں اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی

’اخبار کینسس سٹی اسٹار‘نےامریکہ کے قومی قرض کے بحران کے لیے دونوں ری پبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔دونوں نے بہت سی غلطیاں کی ہیں جِن کے نتیجے میں، اخبار کے خیال میں، ملک ایک مکروہ عمل سے گزر رہا ہے۔

جہاں تک قرض کا تعلق ہے وہ تو کئی عشروں سے موجود رہا ہے۔ لیکن 2001ء سے ٹیکسوں میں جو چھوٹ دی گئی اور 11ستمبر کے بعد سے جو اقتصادی تنزل ہوا ہے اُس کے بعد ہر ایک کو اِس مسئلے میں اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔

اخبار کے خیال میں موجودہ بحث کا آغاز صدر اوباما کے بجٹ سے ہوتا ہے جِس میں، اخبار کے خیال میں، دونوں پارٹیوں کے نمائندہ ’سمپسن بولز کمشین‘ کی سفارشات کو نظر انداز کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ ملک کے قرض کا حل موجود ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ Entitlementsیعنی استحقاق کی مدوں کو شامل کیا جائے یعنی میڈی کیر، میڈک ایڈ اور سوشیل سکیورٹی میں ردوبدل کرنا اس کے ساتھ ساتھ فوجی اخراجات میں بھی کمی کرنا اور آمدنی کے نئے ذرائع پیدا کرنا۔

لیکن، صدر کے بجٹ میں اِن ضروریات کی طرف نہایت ہی کم توجہ دی گئی جِن کی نشاندہی اُن کے اپنے ہی کمیشن نے کی تھی۔

لیکن، شرم کی بات یہیں نہیں ختم ہوتی۔

اخبار نے ایوانِ نمائندگان میں ری پبلیکن مؤقف کو بیہودہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیموکریٹ بعض متنازعہ مگر ضروری اقدامات سے بار بار دست بردار ہوچکے ہیں۔ مثلاً ٹیکس کے نظام میں موجوودہ نقائص کو دور کرنا ، امیر ترین امریکیوں پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانا لیکن ری پبلیکن اپنی رٹ پر قائم ہیں۔ حتیٰ کہ، کئی قدامت پسند تجزیہ کار ری پبلیکن مزاحمت پر حیران ہیں۔اُنھیں تو ہفتوں قبل فتح کا نعرہ بلند کرنا چاہیئے تھا، لیکن ڈیموکریٹوں کے مصالحت کے ہر قدم کے بعد ری پبلیکن ایک قدم پیچھے ہٹتے گئے۔

اخبار کا خیال ہے کہ ری پبلیکن کسی حقیقی حل پر زور نہیں دے رہے، بلکہ ایک ایسے منصوبے پر زور لگا رہے ہیں جس کے نتیجے میں ملک چند مہینوں کے اندر پھر اِسی لایعنی بحث میں الجھ جائے گا۔

اخبار کہتا ہے کہ قرض کی ڈیڈلائن اب چند دِن کی بات ہے اور اخبار پوچھتا ہے کیا یہ درخواست کرنا زیادتی ہوگی کہ خدارا نادہندہ کے الزام سے بچیں۔

ایک خودکش بمبار کے ہاتھوں افغانستان کے جنوبی شہر قندہار کے میئر غلام حیدر حامدی کی ہلاکت پر اخبار بوسٹن گلوب لکھتا ہے کہ یہ ہلاکت جِس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے۔ صوبے کے چیرمین اور صدر کرزئی کے بھائی احمد ولی کرزئی کے قتل کے دو ہفتے بعد ہوئی ہے اور اس سے اخبار کے بقول، یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ نیٹو اور افغان افواج کی کئی مہینوں زبردست لڑائی کے بعد تشدد سے گھِرے اِس علاقے میں سکیورٹی کے نقطہٴ نظر سے جو پیش رفت حاصل کی گئی تھی وہ اب ڈگمگا رہی ہے۔

لیکن، اخبار نے امریکی سفیر ریان کروکر کے حوالے سے بتایا ہے کہ نیٹو فوج کی مہم کی کامیابی کے بعد یہ حملے طالبان کی سخت مایوسی اور کمزوری کی علامت ہوسکتے ہیں۔

اِس کے باوجود اخبار کہتا ہے کہ طالبان نے گنجلک حملے کرنے کی اہلیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ مثلاً ایک ماہ قبل کابل میں انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل پر حملہ جس میں آٹھ خود کش بمبار استعمال ہوئے تھے اور جس پر کئی گھنٹوں کی لڑائی کے بعد قابو پایا گیا تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ میئر غلام حیدر حامدی کے پاس امریکہ اور افغانستان کی دوہری شہریت تھی اور وہ احمد ولی کرزئی کی وفات کے بعد قندھار کونسل کے چیرمن کے عہدے کے لیے امکانی امیدوار تھے۔

اخبار ’شکاگو ٹربیون‘ ایک اداریے میں زرعی شعبے میں کام کرنے والوں کی جانی حفاظت کو یقینی بنانے پر کہتا ہے کہ زراعت، جنگلات، ماہی گیری اور شکار کے کام کرنے والوں میں ہر ایک لاکھ آدمی میں سے 26افراد جان لیوا حادثوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یعنی کسی اور اقتصادی شعبے سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ شرح کا نکنی،تعمیرات، ذرائعِ حمل و نقل کے شعبوں کے مقابلے میں دوگنی ہے۔

مکئی کے کھیتوں میں مکئی کے پودوں سے جبھےہٹانےکے لیے عموماً کم سن بچوں سے کام لیا جاتا ہے۔ یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ Pollinationکو یعنی زرِ گل کی منتقلی کو روکا جائے جِس کے نتیجے میں مکئی کی پیداوار میں زبردست اضافہ ہوجاتا ہے۔

اِلی نائی کی ریاست میں دو 14سالہ لڑکیاں اِسی کام میں مصروف تھیں کہ ایک بجلی کا جھٹکا لگنے سے دونوں کا انتقال ہوگیا۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کے وسط مغربی علاقے میں جو شخص پروان چڑھا ہو وہ کھیت میں کام کرنے والوں میں زخمی ہونے یا ہلاک ہونے کے خطرے سے واقف ہوگا۔ اِس کے باوجود بہت سے لوگ یہ خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوتےہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ دوسرے خطرناک پیشوں کے مقابلے میں زراعت میں نہ تو حفاظت کے ضوابط ہیں اور نہ ہی سرکاری معائنے

ہوتے ہیں جِن کی مدد سے ایسے حادثوں کو روکا جاسکتا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ اِلی نائی میں ان دو کم سن لڑکیوں کی ہلاکت اِس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ زرعی زمین پر کام کرنے والوں کی حفاظت کو فروغ دینے کی سابقہ کوششوں کے نتیجے میں لوگوں کے طرزِ عمل میں کوئی فرق نہیں آیاہے۔

سنہ 1989میں کانگریس میں سماعتوں کے بعد تحقیق سے ثابت ہوا کہ زرعی زمینوں پر بچوں کو نسبتاً کم خطرے لاحق ہوتے ہیں۔اُن کے آباؤ اجداد کے دور میں ٹریکٹر الٹنے، ٹرکوں کے حادثوں اور جانوروں کے حملوں میں 55سال سے زیادہ عمر کے لوگ سینکڑوں کی تعداد میں ہلاک ہوجاتے تھے۔

اخبار کہتا ہے کہ ٹیکنالوجی اور ڈیزائین میں بہتری کے سبب یہ سازوسامان اب زیادہ محفوظ ہے لیکن لوگوں کو حفاظتی تدابیر اختیار کرنے پر مائل کرنا زیادہ مشکل ثابت ہوا ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG