’نیو یارک ہیرلڈ ٹریبیون‘ میں پاکستان میں عنقریب ہونے والے انتخابات کے بارے میں کہا گیا ہےکہ اس غیر مستحکم ملک کی 65 سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہوگا جب عوام کی منتخب کردہ حکومت نے اپنی پانچ سالہ میعاد پوری کی ہو ۔
لیکن، مضمون نگار ہما یوسف کا کہنا ہے کہ 31 جولائی کو ووٹروں کی جو فہرست جاری کی گئی ہےوہ بہت ہی نامکمل ہے اور یہ ممکن ہے کہ انتخابات کے دن ووٹ دینے کے مستحق کم از کم دو کروڑ لوگووٹ دینے سے رہ جائیں۔ مشکل یہ ہے کہ نو کروڑ بیس لاکھ افراد کے پاس کمپیوٹر سے تیا ر کردہ قومی شناختی کارڈ ہیں، لیکن ووٹروں کی فہرست میں صرف 8 کروڑ 43 لاکھ نام درج ہیں ۔
اِس فہرست سے غائب نام اِس سے کہیں زیادہ ہونگے، کیونکہ دور افتادہ علاقوں میں رہنے والوں میں سے بہت سوں کو ابھی شناختی کارڈ نہیں ملے ۔ چناچہ، حکومت ووٹ دینے کے مستحق تمام لوگوں کو رجسٹر کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ لیکن اس کے لئے وقت کم پڑ رہا ہے۔ کیونکہ، حکمران پیپلز پارٹی نے اعلا ن کر رکھا ہے کہ انتخابات شائد مارچ سے پہلے ہی ہونگے ، مضمون نگار کا خیال ہے کہ اس کا مقصد حکومت کے برطرف ہونے کے خطرے کو ٹالنا ہے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی ، اس فائدے سے محروم ہو سکتی ہے جو برسر اقتدار فریق کوعام حالات میں حاصل ہوتا ہے۔
اور چونکہ ووٹروں کی فہرست میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد نئے ووٹروں کے نام شامل نہیں کئے جا سکتے، اس لئے اندیشہ ہے کہ اس طرح لاکھوں لوگ ووٹ کے حق سے محروم ہو جائیں گے ۔
مضمون نگار کی نظر میں ایک اندیشہ یہ ہے کہ اگر ووٹروں کی فہرست متنازعہ رہی ، تو ہارنے والی پارٹی انتخابات کے نتائج کو چیلنج کر سکتی ہے، جس کا ایک شاخسانہ یہ ہوگا کہ ملک کی وسیع نئی پود اس جمہوری عمل میں شرکت نہیں کر سکے گی، اور یہ بھی ایک افسوس ناک بات ہوگی ، اگر ان ٹیکنکل خامیوں کی وجہ سے ایک ایسے انتخاب میں رخنہ پڑ جائے جو جمہوریت کی جانب پاکستان کی پیش رفت میں سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے ۔
ٹیمپا فلوریڈا میں ری پبلکن کنونشن میں مٹ رامنی نے ایک تقریر میں اس سال کے صدارتی انتخابات میں اپنی پارٹی کی نامزدگی قبول کر لی ہے۔
اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے ‘کہتا ہے کہ اس مرحلے پر مٕٹ رامنی اور موجودہ صدر براک اوبامہ کو ووٹروں کے اندر کم و بیش برابربرابر حمائت حاصل ہے ۔البتہ، جہاں تک عورتوں ہسپانوی زبان بولنے والے ووٹروں میں مقبولیت کا تعلّق ہے، مٹ رامنی برسر اقتدار صدر براک اوباما کے مقابلے میں کہیں پیچھے ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ براک اوباما کی بھی اپنی مشکلات ہیں ، مثلاً سفید فام اور عمر رسیدہ ووٹروں کےسلسلے میں۔
’ واشنگٹن پوسٹ‘ مٹ رامنی کی ری پبلکن کنونشن میں تقریر پر ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ ایک حساب سے انہیں اپنے مد مقابل ، براک اوباما سے کہیں آگے پہنچ جانا چاہئیے تھا، کیونکہ ملک کی بھاری اکثریت کا خیال ہے کہ ملک غلط راستے پر گامزن ہے ، لیکن قوم کی یہ قنوطیت اب تک اوباما کو چیلنج کرنے والے کے لئےٹھوس سبقت میں نہیں بدل سکی ہے ۔
لیکن، مضمون نگار ہما یوسف کا کہنا ہے کہ 31 جولائی کو ووٹروں کی جو فہرست جاری کی گئی ہےوہ بہت ہی نامکمل ہے اور یہ ممکن ہے کہ انتخابات کے دن ووٹ دینے کے مستحق کم از کم دو کروڑ لوگووٹ دینے سے رہ جائیں۔ مشکل یہ ہے کہ نو کروڑ بیس لاکھ افراد کے پاس کمپیوٹر سے تیا ر کردہ قومی شناختی کارڈ ہیں، لیکن ووٹروں کی فہرست میں صرف 8 کروڑ 43 لاکھ نام درج ہیں ۔
اِس فہرست سے غائب نام اِس سے کہیں زیادہ ہونگے، کیونکہ دور افتادہ علاقوں میں رہنے والوں میں سے بہت سوں کو ابھی شناختی کارڈ نہیں ملے ۔ چناچہ، حکومت ووٹ دینے کے مستحق تمام لوگوں کو رجسٹر کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ لیکن اس کے لئے وقت کم پڑ رہا ہے۔ کیونکہ، حکمران پیپلز پارٹی نے اعلا ن کر رکھا ہے کہ انتخابات شائد مارچ سے پہلے ہی ہونگے ، مضمون نگار کا خیال ہے کہ اس کا مقصد حکومت کے برطرف ہونے کے خطرے کو ٹالنا ہے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی ، اس فائدے سے محروم ہو سکتی ہے جو برسر اقتدار فریق کوعام حالات میں حاصل ہوتا ہے۔
اور چونکہ ووٹروں کی فہرست میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد نئے ووٹروں کے نام شامل نہیں کئے جا سکتے، اس لئے اندیشہ ہے کہ اس طرح لاکھوں لوگ ووٹ کے حق سے محروم ہو جائیں گے ۔
مضمون نگار کی نظر میں ایک اندیشہ یہ ہے کہ اگر ووٹروں کی فہرست متنازعہ رہی ، تو ہارنے والی پارٹی انتخابات کے نتائج کو چیلنج کر سکتی ہے، جس کا ایک شاخسانہ یہ ہوگا کہ ملک کی وسیع نئی پود اس جمہوری عمل میں شرکت نہیں کر سکے گی، اور یہ بھی ایک افسوس ناک بات ہوگی ، اگر ان ٹیکنکل خامیوں کی وجہ سے ایک ایسے انتخاب میں رخنہ پڑ جائے جو جمہوریت کی جانب پاکستان کی پیش رفت میں سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے ۔
ٹیمپا فلوریڈا میں ری پبلکن کنونشن میں مٹ رامنی نے ایک تقریر میں اس سال کے صدارتی انتخابات میں اپنی پارٹی کی نامزدگی قبول کر لی ہے۔
اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے ‘کہتا ہے کہ اس مرحلے پر مٕٹ رامنی اور موجودہ صدر براک اوبامہ کو ووٹروں کے اندر کم و بیش برابربرابر حمائت حاصل ہے ۔البتہ، جہاں تک عورتوں ہسپانوی زبان بولنے والے ووٹروں میں مقبولیت کا تعلّق ہے، مٹ رامنی برسر اقتدار صدر براک اوباما کے مقابلے میں کہیں پیچھے ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ براک اوباما کی بھی اپنی مشکلات ہیں ، مثلاً سفید فام اور عمر رسیدہ ووٹروں کےسلسلے میں۔
’ واشنگٹن پوسٹ‘ مٹ رامنی کی ری پبلکن کنونشن میں تقریر پر ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ ایک حساب سے انہیں اپنے مد مقابل ، براک اوباما سے کہیں آگے پہنچ جانا چاہئیے تھا، کیونکہ ملک کی بھاری اکثریت کا خیال ہے کہ ملک غلط راستے پر گامزن ہے ، لیکن قوم کی یہ قنوطیت اب تک اوباما کو چیلنج کرنے والے کے لئےٹھوس سبقت میں نہیں بدل سکی ہے ۔