رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: فروغ پاتی امریکی معیشت


بن برنانکی
بن برنانکی

اخبار نیو یارک ٹائمز خبار کہتا ہے کہ 831 ارب ڈالر کے پیکیج کی وجہ سے ایک تو امریکہ دُوسری مرتبہ کساد بازاری سے بچ گیا،جب کہ پچھلے چار سال کے دوران، ہر سال روزگار کے 16 لاکھ مواقع پیدا کئے گئے، یا بچالئے گئے

صدر اوبامہ کے بر سر اقتدار آنے پر انتہائی سرد بازاری کی شکار امریکی معیشت کو سہارا دینے کے لئے 831 ارب ڈالر کی امداد کی جس پیکیج پر عمل کیا گیا تھا، اس پر کئی قدامت پسند حلقوں نے کڑ ی تنقید کی تھی۔ جسے ’نیو یارک ٹائمز‘ نے ایک ادارئے میں گُمراہ کُن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ری پبلکن ارکان نے اس پیکیج کے بارے میں یہ تاثُّر پھیلایا کہ یہ ناکام ہوئی ہے، بلکہ ری پبلکن سپیکر جان بینر نے اس امدادی پیکیج کو ایک ایسے بلند بانگ دعوے سے تعبیر کیا، جس سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

اس سے شدید اختلاف کرتے ہوئے، اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس پیکیج کی رقم زیادہ ہوتی اور اسے مزید احتیاط سے تیار کیا گیا ہوتا، تو اس کی مدد سے اس سے بھی کہیں زیادہ فوائد حاصل کئے جا سکتے تھے۔

اخبار کہتا ہے کہ اس پیکیج کی وجہ سے ایک تو امریکہ دُوسری مرتبہ کساد بازاری سے بچ گیا، جو بالآخر ایک نئے اقتصادی بُحران میں بدل سکتی تھی، اور پچھلے چار سال کے دوران ہر سال روزگار کے 16 لاکھ مواقع پیدا کئے گئے، یا بچالئے گئے۔ اس کی بدولت، قوم کی اقتصادی پیداوار میں دو سے تین فی صد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ اس نے غربت کو بھی پھیلنے سے روکا۔ اور اس کی عدم موجود گی میں سنہ 2010 میں 58 لاکھ کی اضافی آبادی غربت کی طرف دھکیلی جاتی۔


اس کے باوجود، اخبار کہتا ہے ری پبلکن مخالفین اس نظرئے کو بدنام کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ وفاق کے اخراجات بڑھائے جائیں، تو معیشت کو بھی لامحالہ بڑھاوا دیا جا سکتا ہے۔ ان کا جو یہ استدلال ہے کہ یہ پیکیج ناکام ہوئی ہے، اس کا مقصد یہ تھا کہ معیشت کی جو اتنی بحالی ہوئی ہے، اُس کا کریڈٹ اوبامہ کو نہ جائے، اور اس طرح نئے اقدامات کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوششوں کے لئے جواز پیدا کیا جائے۔

اخبار کہتا ہے کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکی روزگار سے متعلّق قانون اور دُوسری ایسی ہی تجاویز کو پاس نہیں ہونے دیا گیا ہے، جن کی بدولت، ملک کی معیشت میں مزید بہتری لائی جا سکتی تھی۔

اخبار کہتا ہے کہ اس پروگرام کو نہ ماننے والوں کو قائل کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہی پروگرام اگر ایک مرتبہ کامیاب ہوا ہے، تو دوبارہ بھی کامیاب ہو سکتا ہے۔


امریکہ نے اپنی دفاعی افواج میں تخفیف کرنے کا جو اعلان کیا ہے، اس پر ’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ محکمہٴدفاع کے چیفس آف سٹاف نے اس کی توثیق کردی ہے۔ البتہ، کانگریس کی طرف سے اس کی کُچھ مخالفت متوقع ہے۔ لیکن، حقیقت میں یہ سنہ 2011 کے بجٹ پر کنٹرول کرنے کے ایکٹ کا ایک حصّہ ہے، جس کی صدر براک اوبامہ حمائت کرتے ہیں۔ انہوں نے عراق اور افغانستان میں جنگ ختم کرنے کا عہد کیا تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ ایک طرف امریکہ اپنی دفاعی افواج کی تعداد میں کمی کر رہا ہے، تو دوسری طرف، چین اور جاپان دونوں نے اپنے دفاعی اخراجات بڑھانے کا اعلان کیا ہے، جس کی جُزوی وجہ علاقائی تنازعات پر جاری عداوت ہے۔ اُدھر رُوس نے بھی اقوم متحدہ کو مطلّع کر دیا ہے کہ اس کا بھی فوج پر اخراجات بڑھانے کا ارادہ ہے، تاکہ وہ آرکٹک میں اپنے حقوق کا تحفط کر سکے۔

اخبار کہتا ہے کہ عراق اور افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد، بجٹ میں کٹوتیوں کے پیش نظر ان فوجیوں کو بر قرار رکھنا ناممکن ہو گیا ہے۔ اور امریکہ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد وسیع ترین انتظامی تبدیلی لائی جا رہی ہے۔ اور اگلے پانچ سال میں ملک کے ول و عرض میں دس فوجی اڈّے یکسر ختم کئے جا رہے ہیں، اور فوج کی نفری میں اسّی ہزار کی تخفیف کی جا رہی ہے۔ وزیر دفاع چک ہیگل کے اعلان کے مطابق، فوج کی مجموعی تعداد چار لاکھ چالیس ہزار نفوس رہ جائے گی۔ اس تخفیف کے تحت ائیر فورس کے حملہ کرنے والے جیٹ طیاروں کی ایک پوری کھیپ بھی ختم کی جارہی ہے۔

’پِو تحقیقی مرکز‘ نے دنیا میں مذہب کی بنیاد پر ہونے والے فسادات کے بارے میں ایک دستاویز تیار کی ہے۔ ’کرسچن سائینس مانٹر‘ نے اس کی تفصیلات چھاپی ہیں، جن کے مطابق، اس قسم کے فسادات سنہ 2012 میں عروج کو پہنچے تھے۔ شمالی اور جنوبی امریکی کو چھوڑ کر ان میں سب سے زیادہ اضافہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ہوا ہے۔

جہاں تک حکومت کی طرف سے مذہب پر عائد کی گئی پابندیوں کا تعلُّق ہے، اس کا تناسب لگ بھگ سابقہ برسوں کے مساوی ہی رہا، اور رپورٹ میں دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آبادی والے ملکوں میں مصر، انڈونیشیا، روس، پاکستان اور برما کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے، جہاں مذہب کے معاملے میں سب سے زیادہ پابندیاں عائد ہیں، جو حکومت اور معاشرے دونوں کی طرف سے لگائی گئی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں سابقہ برس کی طرح مذہب کی بنیاد پر فسادات کی شرح سب سے زیادہ رہی، جب کہ مصر میں مذہب کے معاملے میں لگنے والی پابندیوں کی شرح سب سے بلند تھی۔
XS
SM
MD
LG