رسائی کے لنکس

انتخابی نتائج کے امریکی سیاست پر اثرات


صدر اوباما انتخابی نتائج کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے (فائل فوٹو)
صدر اوباما انتخابی نتائج کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے (فائل فوٹو)

دو برس پہلے ڈیموکریٹک امیدوار براک اوباما تبدیلی لانے کے وعدے پر صدر بنے تھے اور اب انھیں ایک نئی حقیقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ریپبلیکنز نے ایوان نمائندگان کا کنٹرول واپس لے لیا ہے اور وہ اب اپنی مرضی کی تبدیلیاں لانے کے وعدے کر رہے ہیں۔

وسط مدتی انتخابات میں ریپبلیکنز نے آسانی سے ایوان نمائندگان پر اپنا کنٹرول بحال کر لیا لیکن وہ سینیٹ میں اکثریت حاصل نہ کر سکے۔ صرف دو سال پہلے بعض ڈیموکریٹس نے جس پارٹی کے لیے کہا تھا کہ اس کا اثر و رسوخ ختم ہو چکا ہے اس نے وسط مدتی انتخاب میں شاندار کامیابی حاصل کر لی۔

منگل کے انتخاب کے بعد اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں صدر نے تسلیم کیا کہ عوام کا موڈ ان کی پارٹی کے خلاف ہو گیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایوانِ نمائندگان میں ریپبلیکن پارٹی کی نئی اکثریت کے ساتھ تعاون کرنے کے عزم پر قائم ہیں۔ ”کوئی ایک پارٹی دوسری پارٹی پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکے گی۔ ہمیں بعض انتہائی مشکل مسائل کے حل میں پیش رفت کے لیے مشترکہ راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔ میں نے ریاست اوہایو کے ریپبلیکن نمائندے جان بوئنر اور ریاست کنٹکی کے ریپبلیکن سینیٹرمچ میکونل سے گذشتہ رات کہا کہ میں دونوں پارٹیوں کے ارکان کے ساتھ مِل بیٹھنے اور ایک ساتھ آگے بڑھنے کے طریقے معلوم کرنے کے لیئے بے چین ہوں“۔

اگرچہ سینیٹ میں ریپبلیکنز کے اکثریت حاصل کرنے میں تھوڑی سی کسر رہ گئی لیکن منگل کے انتخاب میں انہیں مجموعی طور پر جو زبردست کامیابی حاصل ہوئی ہے اس سے ان کے حوصلے بڑھ گئے ہیں اور وہ فوری طور پر حکومت کے سائز اور وفاقی اخراجات میں کمی کرنے اور ٹیکس گھٹانے کے اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔

توقع ہے کہ ریاست اوہایو کے ریپبلیکن نمائندے جان بوئنر ایوانِ نمائندگان کے نئے اسپیکر بن جائیں گے ۔ اُنھوں نے رپورٹروں کو بتایا کہ ان کے تعاون کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ صدر اور ان کے ساتھی ڈیموکریٹس کس حد تک تبدیلی کے لیے تیار ہیں۔ ” صاف ظاہر ہے کہ امریکی عوام نے اوباما-پیلوسی ایجنڈا مسترد کر دیا ہے ۔ جیسا کہ میں نے کل رات کہا تھا لوگ چاہتے ہیں کہ صدر اپنا راستہ تبدیل کریں“۔

جان بوئنر (فائل فوٹو)
جان بوئنر (فائل فوٹو)

منگل کے انتخاب میں ووٹ ڈال کر باہر آنے والوں کے جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ امریکیوں کو جس چیز کی سب سے زیادہ فکر ہے وہ معیشت ہے اور ان کی سب سے بڑی پریشانی بے روزگاری کی اونچی شرح ہے جو ملک میں نو اعشاریہ چھہ فیصد ہے ۔

لیکن پولسٹر جان زوگبے John Zogby کہتے ہیں کہ انتخاب کے نتائج کو اس طرح دیکھنا چاہیے کہ ووٹروں نے ڈیموکریٹس کو مسترد کر دیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انھوں نے ریپبلیکنز کو گلے لگا لیا ہے۔ ڈیموکریٹس سے لوگوں کو جو مایوسی ہوئی اس کا نتیجہ ریپبلیکنز کی فتح کی صورت میں نکلا ہے لیکن اس سے ریپبلیکنز کی مقبولیت میں اضافہ نہیں ہوا ہے ۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ اب ہوگا کیا؟ کیا صدر اور ریپبلیکنز معیشت، غیر ملکی تجارت، اور آب و ہوا کی تبدیلی کے مسائل میں کوئی مشترکہ موقف تلاش کر سکیں گے؟ بہت سے سیاسی تجزیہ کار وں کو شبہ ہے کہ کم از کم فوری طور پر ایسا ہو سکے گا۔

بہت سے کامیاب ہونے والے ریپبلیکن ارکان کو قدامت پسند ٹی پارٹی کی تحریک کی حمایت حاصل تھی ۔ اس پارٹی کی اولین ترجیح یہ ہے کہ حکومت کے سائز کو کم کیا جائے ۔ یونیورسٹی آف ورجینیا کے سیاسی ماہر لیری سیباتو کہتے ہیں کہ منتخب ہونے والوں میں سے ٹی پارٹی کے بہت سے ارکان نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ اصولوں سے نہیں ہٹیں گے ۔ انہیں سمجھوتہ کرنے میں دلچسی نہیں ہے ۔ ٹی پارٹی کے لیڈروں کے بہت سے حامیوں کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ ہم واشنگٹن اس لیے جا رہے کہ وہاں کے طور طریقے بدلیں اور دوسرے لوگوں کو ہمارے ساتھ چلنا ہوگا۔

ایک اور پیچیدہ مسئلہ جس کی وجہ سے دونوں پارٹیوں کے درمیان تعاون مشکل ہو سکتا ہے یہ ہے کہ 2012ء میں صدارتی انتخاب ہونے والا ہے ۔اگرچہ ابھی اس میں دو برس باقی ہیں لیکن وائٹ ہاوس کے لیئے ریپبلیکن امیدواروں نے ابھی سے تیاریاں شروع کر دی ہیں اور اگلے سال کے شروع میں امیدوار پیسے اکٹھے کرنا اور کارکنوں کو بھرتی کرنا شروع کر دیں گے ۔

سابق ڈیموکریٹک صدر بل کلنٹن کو بھی1994ء کے وسط مدتی انتخابات کے بعد اسی قسم کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ریپبلیکنز نے ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں اکثریت حاصل کر لی تھی۔ اس وقت مسٹر کلنٹن نے بعض معاملات میں ریپبلکنز سے ٹکر لی اور بعض میں ان کے ساتھ تعاون کیا ۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان کے اس انداز کی وجہ سے1996ء میں انھیں دوبارہ منتخب ہونے میں مدد ملی۔

XS
SM
MD
LG