رسائی کے لنکس

روس اور امریکہ سکیورٹی اطلاعات سے ایک دوسرے کو باخبر رکھیں گے


گذشتہ جمعے کو روس کے صدر ولادیمر پوٹن نے صدر براک اوباما کو فون کیا ۔ کریملن کے مطابق، دونوں صدور نے اطلاعات کے تبادلے کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا۔

بوسٹن میں بم دھماکوں کے بعد، کریملن اور وائٹ ہاؤس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ سیکورٹی کے بارے میں اطلاعات سے ایک دوسرے کو زیادہ اچھی طرح با خبر رکھیں گے۔ بوسٹن کے واقعے کو انٹیلی جنس کی ایک بڑی ناکامی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

گذشتہ ہفتے، چیچنیا سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں نے بظاہر بوسٹن میں بموں اور گولیوں سے تباہی مچا دی ۔ اس ہفتے، روس اور امریکہ میں سیکورٹی کے ماہرین میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ دو برس سے خطرے کے جو سگنل مل رہے تھے، وہ کس طرح نظروں سے اوجھل ہو گئے ۔

ماسکو میں آندرئے سولڈاتووف ایک ویب سائٹ Agentura.ru چلاتے ہیں جو روس کی سیکورٹی سروسز کا مطالعہ کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’جہاں تک حساس اطلاعات کے ایک دوسرے کے ساتھ تبادلے کا تعلق ہے، روس اور امریکہ کی کارکردگی اچھی نہیں ہے۔‘‘

نیو یارک یونیورسٹی کے پروفیسر مارک گالیوٹی، روس اور امریکہ کی سیکورٹی سروسز کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’کسی دوسرے ملک کے ساتھ سیکورٹی کی اطلاعات کا تبادلہ کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ اس ملک کو پسند بھی کرتے ہوں۔‘‘

اب یہ باتیں ایسے وقت میں کہی جا رہی ہیں جب ایسے نئے شواہد ملے ہیں کہ دونوں بھائیوں میں سے بڑے بھائی تیمرلان سرنائیو میں اسلامی انتہا پسندی کے رجحان پیدا ہو چکے تھے۔

2011 میں روس کی درخواست پر، ایف بی آئی نے تیمرلان سرنائیو سے پوچھ گچھ کی، اور اس کے سفر کے ریکارڈ اور انٹرنیٹ کے استعمال کا جائزہ لیا۔ ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ کوئی ٹھوس چیز سامنے نہیں آئی۔

جنوری 2012 میں سرنائیو، جو روسی شہری تھا، روس چلا گیا ۔ اس نے چھ مہینے داغستان اور چیچنیا میں اپنے دوستوں اور رشتے داروں سے ملنے میں صرف کیے ۔ یہ وہ دو روسی ریپبلکس ہیں جن میں حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ تشدد دیکھنے میں آیا ہے۔

گذشتہ جولائی میں جب وہ امریکہ واپس آیا، تو نیو یارک ایئر پورٹ پر امیگریشن کے عہدے داروں نے اس سے تفصیلی پوچھ گچھ کی۔

بوسٹن واپس پہنچنے کے بعد، اس نے یو ٹیوب پر ایک سائٹ بنائی جسے ہر کوئی دیکھ سکتا تھا ۔ اس سائٹ پر اس نے ایسے وڈیو لگائے جن میں جہاد کی تبلیغ کی گئی تھی۔ بعض مناظر میں جنوبی روس کے سب سے بڑے مسلح اسلامی گروپ Caucasus Emirate کے نشانات نظر آتے ہیں۔

ستمبر میں سرنائیو نے امریکی شہریت کی درخواست دی۔ جب ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکورٹی کو پتہ چلا کہ ایف بی آئی نے اسے انٹرویو کیا تھا، تو اس کی درخواست پر فیصلہ ملتوی کر دیا گیا۔

این بی سی نیوز کے مطابق، اس کے چند ہفتے بعد، روسی عہدے داروں نے ایک بار پھر ایف بی آئی سے سرنائیو کے بارے میں بات کی اور بتایا کہ وہ داغستان میں ایک جانے پہچانے عسکریت پسند سے ملا تھا ۔ روسی کہتے ہیں کہ انہیں کچھ نہیں معلوم کہ اس کے بعد مزید کوئی تفتیش کی گئی یا نہیں۔

حزبِ اختلاف کے ایک اعتدال پسند روسی سیاستداں ولادیمر میلووف نے پیر کے روز ماسکو میں کہا ’’روسیوں نے انہیں خبر دار کر دیا تھا کہ ممکن ہے یہ دونوں کچھ کرنے والے ہوں ۔ یہ بہت بڑی ناکامی ہے کہ وہ اس کیس میں کچھ پتہ نہیں چلا سکے اور اس کے نتیجے میں یہ المناک واقعہ ہوا۔‘‘

گذشتہ جمعے کو روس کے صدر ولادیمر پوٹن نے صدر براک اوباما کو فون کیا ۔ کریملن کے مطابق، دونوں صدور نے اطلاعات کے تبادلے کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا۔ لیکن ماہرین کو یقین نہیں کہ واقعی ایسا ہو گا۔

نیو یارک سے مارک گالیوٹی کہتے ہیں ’’مسئلہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے بارے میں خاصا شک و شبہ موجود ہے ۔ امریکی عہدے داروں کو یہ شبہ ہے کہ جو کوئی بھی روسیوں کو نا پسند ہوگا، وہ اس پر القاعدہ یا اس سے ملتے جلتے رجحانات رکھنے کا الزام لگا دیں گے ۔ اور دوسری طرف، روسیوں کا خیال ہے کہ امریکی ، دوسری مغربی طاقتوں کی طرح، ایسی تمام اطلاعات اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں جن کی روسیوں کو اپنے داخلی مسائل کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

اتوار کے روز، Caucasus Emirate نے بوسٹن میں ہونے والے تشدد میں ملوث ہونے سے انکار کیا اور کہا کہ اس کی اصل جنگ روس کے ساتھ ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان دونوں میں سے بڑے بھائی نے دہشت گردی کا نظریہ اپنے طور پر انٹرنیٹ سے سیکھا تھا۔

روس میں شمالی قفقاز کے علاقے میں، باغیوں کے نیٹ ورکس خاصے سرگرم ہیں۔ پیر کے روز، روسی عہدے داروں نے اسلامی انتہا پسندوں کے ہاتھوں تشدد کے اعداد و شمار جاری کیے۔ اس سال کے پہلے تین مہینوں میں، گولیاں چلانے اور بمباری کے 47 واقعات میں 39 افراد ہلاک اور 105 زخمی ہوئے ۔ بیشتر ہلاک اور زخمی ہونے والے سپاہی یا پولیس والے تھے ۔
XS
SM
MD
LG