رسائی کے لنکس

'امریکہ یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کا جواب سخت اقتصادی پابندیوں سے دے گا'


امریکی صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن روس کے صدرپوٹن سے بات کرتے ہوئے۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن روس کے صدرپوٹن سے بات کرتے ہوئے۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے، منگل کو اپنے روسی ہم منصب ولا دی میر پوٹن کو ایک ورچوئل اجلاس میں متنبہ کیا کہ اگر روس نے یوکرین کے خلاف کوئی جارحانہ اقدام کیا، تو امریکہ اس کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کر سکتا ہے.

امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے وائٹ ہاوس میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کی جانب سے جوابی طور پر سخت اقتصادی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔

جیک سلیون کے بقول، روس کی کسی جارحیت کی صورت میں "ہم یوکرین کو اس سے بڑھ کر اضافی دفاعی سامان فراہم کریں گے، جو اس وقت فراہم کی جا رہی ہے۔ اور اپنے نیٹو اتحادیوں کو ان کی مشرقی سرحدوں پر اضافی دفاعی صلاحیت فراہم کریں گے"۔

جیک سلیون کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن نے روس کے صدر کو ایک اور راستے کی پیشکش بھی کی ہے۔ یعنی "محاذ آرائی ترک کرنے اور سفارتکاری" کی پیشکش۔

واضح رہے کہ امریکہ کے صدر جوبائیڈن اور روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے منگل کو دو گھنٹے اور ایک منٹ تک وڈیو لنک کے ذریعے ایک ورچوئل سربراہ ملاقات کی ہے۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے، جب مغربی ملک اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ روس اپنے ہمسایہ ملک یوکرین پر حملے کے لیے تیار نظر آ رہا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ صدر بائیڈن نے وسیع تر معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔ صدر بائیڈن نے اس موقع پر امریکہ اور یورپی اتحادیوں کی جانب سے یوکرین کی سرحد کے نزدیک روس کی فوجوں میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور صدر پوٹن پر واضح کیا کہ اگر روس نے کسی فوجی مہم جوئی کا آغاز کیا تو امریکہ اور اس کے اتحادی سخت معاشی پابندیوں اور دیگر اقدامات کے ساتھ جواب دیں گے۔

اس ورچوئل اجلاس میں صدر بائیڈن نے یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سلامتی کے لیے امریکہ کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا اور کشیدگی کم کرنے اور سفارتی ذرائع سے مسائل حل کرنے پر زور دیا۔

وائٹ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق دونوں صدور نے اپنی اپنی ٹیموں کو یہ ذمہ داری دی ہے کہ وہ بات چیت جاری رکھیں اور امریکہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ قریبی مشاورت کے ساتھ یہ بات چیت جاری رکھے گا۔

صدر بائیڈن نے اس موقع پر روس اور امریکہ کے درمیان سٹریٹیجک سٹیبلٹی یا حکمت عملی کے استحکام پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ یہ مذاکرات کا ایک الگ سلسلہ ہے۔ دونوں صدور کے درمیان ایران سمیت علاقائی مسائل پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق دونوں صدور کے درمیان دو گھنٹے اور ایک منٹ تک گفتگو جاری رہی۔

اس سے قبل خبر رساں ادارے رائٹرز نے روسی ٹیلی وژن کے حوالے سے بتایا کہ وڈیو فوٹیج جاری کی ہے اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گفتگو کے آغاز میں صدر بائیڈن اور صدر پوٹن ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ انداز میں خیر مقدمی جملوں کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ اس ورچوئل اجلاس کے بارے میں سخت مکالمے کی توقع کا اظہار کیا گیا تھا۔
صدر بائیڈن نے روسی ہم منصب سے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ان کے درمیان اگلی ملاقات بالمشافہ ہو گی۔

روس اور یوکرین میں معاملہ ہے کیا؟

امریکہ اور مغربی ممالک کے عہدیداروں کو روس کی جانب سے یوکرین کی سرحد کے نزدیک فوجوں میں اضافے پر تشویش ہے۔ ان کو خدشہ ہے کہ فوجوں کی سرحد پر تعیناتی اور ان میں اضافہ سابق سوویت یونین کے پڑوسی ملک یوکرین پر روس کے حملے کا اشارہ ہو سکتا ہے۔

روس نے یوکرین کے ایک جزیرہ نما علاقے کریمیا کو سال 2014ء میں اس وقت اپنے ساتھ ضم کر لیا تھا جب یوکرین کے روس نواز صدر کو عوامی احتجاج کے سبب اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔ اس کے علاوہ روس یوکرین کے مشرق میں علیحدگی پسندوں کی تحریک کی بھی حمایت کرتا ہے۔

دوسری جانب روس جارحانہ ارادوں سے متعلق مغرب کی جانب سے ایسے خدشات پر مبنی مہم کی تردید کرتا ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ آیا روس کی فوجوں میں اضافہ کسی حملے کا بڑھتا ہوا خطرہ ہے یا یہ اقدام امریکہ اور نیٹو اتحادی ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہے کہ وہ یوکرین کے اندر فوج اور اسلحہ بھجوانے سے گریز کریں اور یوکرین کے نیٹو میں ادغام کے منصوبے بھی ترک کر دیں۔

XS
SM
MD
LG