رسائی کے لنکس

طالبان پر امریکہ نے کیا کیا پابندیاں لگائی ہیں؟


عالمی برادری جہاں یہ چاہتی ہے کہ ساڑھے تین کروڑ افغان شہریوں کے مشکلات کو آسان کیا جائے وہیں طالبان کو مجبور کیا جائے کہ وہ اعتدال پسند پالیسی کی جانب مائل ہوں۔
عالمی برادری جہاں یہ چاہتی ہے کہ ساڑھے تین کروڑ افغان شہریوں کے مشکلات کو آسان کیا جائے وہیں طالبان کو مجبور کیا جائے کہ وہ اعتدال پسند پالیسی کی جانب مائل ہوں۔

کابل پرگزشتہ برس اگست میں طالبان کے قبضے اور اس کے بعد وہاں رونما ہونے والے انسانی المیے نے بائیڈن انتظامیہ کو مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ انتظامیہ کے سامنے یہ سوال درپیش ہے کہ افغانستان میں امداد جاری رکھی جانے کا کیا ایسا طریقہ کار ہو کہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جاسکے کہ امدادی رقوم سے طالبان اور حقانی نیٹ ورک فائدہ نہ اٹھائیں۔

عالمی برادری جہاں یہ چاہتی ہے کہ ساڑھے تین کروڑ افغان شہریوں کے مشکلات کو آسان کیا جائے وہیں طالبان کو مجبور کیا جائے کہ وہ اعتدال پسند پالیسی کی جانب مائل ہوں۔

رسک کنسلٹنگ فرم کرول کے مینجنگ ڈائریکٹر جارڈن سٹراس 2014 اور 2015 میں افغانستان میں امریکی محکمۂ انصاف کی جانب سےخدمات انجام دے چکے ہی۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ تقریباً ناممکن معلوم ہوتا ہے۔

طالبان کی جانب سے کابل پر قبضے کے بعد ان پر وسیع پیمانے پر پابندیاں لگائی گئیں جن کی تاریخ طالبان کے پہلے دورِ اقتدار سے ملتی ہے۔

طالبان کے افغان حکومت کے اثاثوں تک رسائی روکنے کے لیے بائیڈن انتظامیہ نے امریکہ کے ریزرو بینک میں موجود افغانستان کی حکومت کے سات ارب ڈالرز منجمد کر دیے ہیں۔

افغان اثاثوں کے منجمد ہونے کے بعد ملک میں جاری معاشی بحران بدترین شکل اختیار کر گیا ہے۔

ناروے کی ریفیوجی کونسل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر برنیس جی رومیرو نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انسانی المیے کو روکنے کے لیے جو معاونت چاہیے اس میں بینکنگ سیکٹر کی عدم موجودگی اور معاشی انہدام رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔

امدادی گروپس کے دباؤ کے نتیجے میں بائیڈن انتظامیہ نے ستمبر اور پھر دسمبر میں کچھ پابندیوں میں نرمی کی تھی۔ اس کی وجہ سے این جی اوز کو افغانستان میں خوراک اور دیگر امدادی کام کرنے کا موقع ملا ہے۔

طالبان پر پابندیاں

طالبان پر پہلی دفعہ امریکہ کی پابندیاں 1990 کی دہائی میں ان کے پہلے دور میں لگائی گئی تھیں جنہیں گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد مزید سخت کر دیا گیا تھا۔ان حملوں کے بعد اس وقت کےامریکہ نے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو ایک صدارتی حکم نامے کے تحت دہشت گرد تنظیمیں قرار سے دیا تھا۔

دونوں تنظیموں کو دہشت گرد قرار دینے کی وجہ سے امریکی حکام ان عسکری تنظیموں کے اثاثوں پر پابندی اور انہیں ضبط کر سکتے ہیں۔

طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد یہ واضح نہیں ہے کہ 20 برس پہلے کی پابندیاں ان پر اب بھی عائد ہیں یا نہیں۔ اسٹراس کے مطابق یہ امر ابھی واضح ہونا باقی ہے۔

امریکی محکمۂ خزانہ نے پابندیوں میں کس قسم کی نرمی کی ہے؟

افغانستان میں امدادی سرگرمیوں کے متاثر ہونے کے خدشے کے تحت محکمۂ خزانہ نے این جی اوز اور امدادی تنظیموں کو بڑے پیمانے پر چھوٹ دی ہے۔

ستمبر 2021 سے محکمۂ خزانہ نے چھ جنرل لائسنس جاری کیے ہیں جس کے تحت ایسی سرگرمیاں جاری رکھی جا سکتی ہیں جنہیں پابندیوں کی وجہ سے جاری رکھنا ناممکن تھا۔

ان لائسنسوں کے ذریعے بین الاقوامی تنظیمیں ملک میں خوراک، ذرعی پیداوار، اسپتالوں کو امداد، اساتذہ اور طبی عملے کو تنخواہیں فراہم کر سکتی ہیں۔

کیا اشرف غنی واقعی اپنے ساتھ کروڑوں ڈالرز لے کر گئے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:15 0:00

دسمبر میں دی گئی مزید نرمی کے تحت اب این جی اوز افغانستان میں انسانی حقوق، معلومات کی فراہمی اور حکومتی احتساب جیسی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہیں۔

اگرچہ ابھی بھی حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے حکام امریکی پابندیوں کا نشانہ ہیں لیکن اب ملک میں این جی اوز ان کے ساتھ کام کر سکتی ہیں۔

یہ این جی اوز طالبان کو ٹیکس اور ڈیوٹیز بھی دے سکتی ہیں۔

ان لائسنسوں کے تحت کیا نہیں کیا جا سکتا؟

اگرچہ امدادی تنظیمیں طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے ساتھ کام کر سکتی ہیں لیکن وہ کسی بھی قسم کی رقوم انہیں فراہم نہیں کر سکتیں۔

لیکن یہ ابھی بھی واضح نہیں ہے کہ کیا ان پابندیوں کی وجہ سے شہری تنظیمیں اپنا کام جاری رکھ سکتی ہیں یا نہیں۔

کراؤڈ سورسنگ ویب سائٹ گو فنڈ می نے حال ہی میں ایک افغان صحافی کی مہم کو معطل کر دیا جو اپنی نیوز ویب سائٹ کے لیے سرمایہ اکٹھا کر رہے تھے۔

گو فنڈ می نے وائس آف امریکہ کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا ۔ وائس آف امریکہ کی جانب سے امریکی محکمۂ خزانہ نے پابندیوں کی نوعیت سے متعلق سوالات کا جواب ابھی تک نہیں دیا۔

XS
SM
MD
LG