رسائی کے لنکس

روسی ایپلی کیشن ’فیس ایپ‘ پر پابندی کا مطالبہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ کے سینیٹر چک شُومر نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) اور فیڈرل ٹریڈ کمشن (ایف ٹی ڈی) کو اسمارٹ فون کی وائرل ہونے والی ’فیس ایپ‘ نامی ایپلی کیشن پر پابندی لگانے کی تجویز دی ہے۔

چک شُومر نے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے اور ایف ٹی سی کے چیئرمین جو سائمنز کو خط لکھا ہے جس میں روسی کمپنی کی اسمارٹ فون ایپلی کیشن ’فیس ایپ‘ کے خلاف تحقیقات شروع کرنے اور ایپلی کیشن پر پابندی لگانے کی درخواست کی گئی۔

بدھ کے روز لکھے گئے اپنے خط میں انہوں نے کہا کہ ’فیس ایپ‘ روس کی بنائی ہوئی ایک فوٹو ایڈیٹنگ ایپلی کیشن ہے۔ وائرل ہونے والی اسمارٹ فون کی یہ ایپلی کیشن صارف کی تصویر پر فلٹر لگا کر صارف کی عمر میں اضافہ کر کے دکھاتی ہے جس سے صارف بوڑھا نظر آتا ہے۔

چک شُومر کا کہنا تھا کہ فیس ایپ اپنے صارف سے اس کے مکمل ذاتی ڈیٹا اور تصاویر تک رسائی مانگتی ہے جو لاکھوں امریکی شہریوں کی سیکورٹی اور راز داری خطرے میں ڈالنے کا سبب بن سکتی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ​ایپلی کیشن میں یہ بھی واضح نہیں ہے کہ فیس ایپ کے استعمال کے بعد صارف اپنا ڈیٹا مکمل طور پر کیسے ڈیلیٹ کر سکتا ہے۔

سینیٹر نے مزید بتایا ہے کہ فیس ایپ کی لوکیشن روس میں ہونے سے یہ شُبہات جنم لیتے ہیں کہ اس ایپلی کیشن سے امریکی شہریوں کا ذاتی ڈیٹا دیگر ممالک کی حکومتوں سمیت متعدد افراد کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔

امریکہ کی ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی نے بھی بدھ کے روز اپنے 2020 کے صدارتی امیدواروں کو فیس ایپ کے استعمال سے خبردار کیا ہے اور انہیں اسمارٹ فون کی اس ایپلی کیشن کو فوری ڈیلیٹ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق روسی کمپنی کی اسمارٹ فون ایپلی کیشن فیس ایپ کی جانب سے روس کی حکومت کو صارفین کی معلومات فراہم کرنے کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔

رائٹرز کے مطابق فیس ایپ نے کسی صارف کا ڈیٹا بیچنے یا کسی دوسرے فرد کو ڈیٹا تک رسائی دینے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ 99 فی صد صارفین ’لاگ اِن‘ نہیں کرتے اور ہمارے پاس کسی ایسے ڈیٹا تک رسائی نہیں ہوتی جو کسی شخص کی شناخت کر سکے۔

فیس ایپ کے مطابق زیادہ تر تصاویر اپ لوڈ ہونے کے 48 گھنٹے بعد ڈیلیٹ ہو جاتی ہیں۔ کمپنی روس میں قائم ہے لیکن اس سے حاصل کردہ ڈیٹا حکومت کو منتقل نہیں ہوتا۔

واضح رہے کہ وائرل ہونے والی اسمارٹ فون کی ایپلی کیشن فیس ایپ ’وائرلیس لیب‘ نامی ایک روسی کمپنی نے بنائی ہے جو سینٹ پیٹرز برگ میں قائم ہے۔

کمپنی کے مطابق فیس ایپ کو استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد 8 کروڑ سے زائد ہو چکی ہے۔

واضح رہے کہ یہ ایپلی کیشن 2017 میں لانچ کی گئی تھی۔ اس میں کچھ لسانی فلٹرز شامل تھے جس کی وجہ سے صارفین نے اسے نسل پرستانہ ایپلی کیشن قرار دے کر مذمت کی تھی۔ جس کے بعد اس میں سے یہ فلٹرز نکال دیے گئے تھے۔

حالیہ دنوں میں یہ ایپلی کیشن دوبارہ مشہور ہوئی ہے۔ شوبز ستاروں، کھلاڑیوں سمیت لاکھوں پاکستانی صارفین بھی فیس ایپ استعمال کرتے ہوئے اپنی بنائی گئی تصاویر کو سوشل میڈیا پر ڈال رہے ہیں۔

حالیہ دنوں میں اس ایپلی کیشن پر یہ اعتراضات بھی اٹھائے گئے ہیں کہ فیس ایپ نامی ایپلی کیشن تصویر کو صارف کے موبائل سے آن لائن ’کلاؤڈ ڈیٹا اسٹوریج‘ میں کیوں محفوظ کرتی ہے۔

XS
SM
MD
LG