ٹی پارٹی کوئی باقاعدہ سیاسی پارٹی نہیں بلکہ ایک سیاسی تحریک ہے ۔ٹی پارٹی کے حامی ٹیکس اور سرکاری اخراجات اور وفاقی حکومت کا عمل دخل کم کرنا چاہتے ہیں ۔ٹی پارٹی کی تحریک کو گذشتہ سال صدر اوباما کے علاج معالجے کے نظام میں اصلاح کے منصوبے پر بحث کے دوران مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ بحث ملک بھر میں بے شمار جلسوں اور ہنگامہ خیز ٹاؤن ہال میٹنگوں میں جاری رہی۔
حزبِ اختلاف کے ریپبلکن ارکان کا خیال ہے کہ ٹی پارٹی کی تحریک کے جوش و خروش اور عام لوگوں کی سطح پر اسے جو کامیابی حاصل ہوئی ہے، اس کے ذریعےوہ کانگریس کے وسط مدتی انتخاب میں فتح حاصل کر لیں گے۔اس امید پر ایوان نمائندگان میں تقریباً 30ریپبلیکن ارکان نے ایک ٹی پارٹی کاکس قائم کیا ہے ۔
یہ گروپ حکومت کے رول کو محدود کرنے کے لیے کام کرے گا جو ٹی پارٹی کی تحریک کا ایجنڈا ہے ۔ اس کوشش کی قیادت ریاست منی سوٹا سے ایوان نمائندگان کی خاتون رکن میشیل بیکمین کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’ٹی پارٹی کے ارکان عام امریکیوں کی نمائندگی کرتے ہیں جنھوں نے طے کیا ہے کہ وہ اپنے ملک کواس کی اقدار پر واپس لانا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر پہلے ہی بہت ٹیکس لگ چکے ہیں اور وفاقی حکومت کو صرف اتنا پیسہ خرچ کرنا چاہیئے جو اسے ملتا ہے اور کانگریس کو ان آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کرنا چاہیئے جو ملک کے بانیوں نے متعین کی تھیں۔‘‘
ڈیموکریٹک سیاسی ماہرین اسٹان گرین برگ اور جیمز کاروِل کے ایک حاٖلیہ جائزے کے مطابق ٹی پارٹی کے حامی اس سال کے کانگریس کے انتخابات کے بارے میں بڑے پُر جوش ہیں اور وہ ایک یا دونوں ایوانوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے میں، ریپبلیکنز کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔گرین برگ کہتے ہیں کہ اس سروے سے پتہ چلا کہ ٹی پارٹی کے حامیوں میں بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اس سال کے انتخابات میں ووٹ دیں گے۔ ان میں 92 فیصد لوگ اوباما کی کارکردگی کو نا پسند کرتے ہیں۔ گرین برگ کہتے ہیں کہ ٹی پارٹی کی تحریک بنیادی طور پر قدامت پسند عوامی طبقے کی تحریک ہے اور یہ لوگ عام طور سے ریپبلیکنز کو ووٹ دیتے ہیں۔
ریپبلیکنز کی نظر میں ٹی پارٹی کی تحریک اس سال ان کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ لیکن گرین برگ کے مطابق ٹی پارٹی کے ناقدین کی بھی کمی نہیں۔ ان میں چند اعتدال پسند ریپبلیکنز بھی شامل ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ اس تحریک میں انتہا پسندی کے رجحانات موجود ہیں اور اس کا رویہ اقلیتوں اور تارکین وطن کے بارے میں معاندانہ ہے ۔
گرین کہتے ہیں’’آپ ٹی پارٹی کے حامیوں کے حلقے سے باہر نکل کر دیکھیں تو پھر یہ تحریک زیادہ مقبول نہیں ہے ۔ایک بڑی اکثریت اس کے نظریات کو انتہا پسندی پر مبنی سمجھتی ہے ۔ جو لوگ ٹی پارٹی کے حامی نہیں ہیں ان میں نصف تعداد یہ سمجھتی ہے کہ صدر اوباما کی مخالفت کی وجہ نسل پرستی پر مبنی ہے ۔‘‘
امریکہ میں شہری حقوق کی ایک بڑی تنظیم، NACCP نے حال ہی میں ٹی پارٹی کے لیڈروں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی صفوں میں سے نسل پرستی پر مبنی عناصر کو خارج کر دیں۔ نیشنل ٹی پارٹی فیڈریشن نے ایک گروپ کے لیڈر کو نسل پرستی پر مبنی بلاگ میں نسلی مواد شامل کرنے کی پاداش میں گروپ سے خارج کر دیا۔ ٹی پارٹی کے لیڈر اپنی صفوں میں اقلیتی ارکان کی شمولیت کو بھی اجا گر کر رہے ہیں۔
ڈینیلے ہولارز ورجینیا سے تعلق رکھنے والے سابق فوجی ہیں ۔ وہ کہتے ہیں’’میں یہاں اس لیے موجود ہوں کیوں کہ میں امریکیوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم دہشت گرد نہیں ہیں، ہم نسل پرست نہیں ہیں۔ ہم ایسے امریکی ہیں جنہیں اپنے ملک کی اور اپنے بچوں اور ان کی نسلوں کا مستقبل عزیز ہے ۔‘‘
ٹی پارٹی کے حامیوں میں کانگریس کی خاتون رکن میشیل بیکمین بہت مقبول ہیں۔ صرف 2008 میں ریپبلیکن پارٹی کی طرف سے نائب صدارت کی امیدوار اور ریاست الاسکا کی سابق گورنر سارہ پیلن ان سے بھی زیادہ مقبول ہیں۔
اس سال کے شروع میں ٹی پارٹی کے پہلے کنونشن میں سارہ پیلن خصوصی مقرر تھیں۔ ہو سکتا ہے کہ سارہ پیلن ٹی پارٹی میں اپنی مقبولیت کو ، 2012 میں صدارتی انتخاب کی مہم شروع کرنے کے لیے استعمال کر یں۔