رسائی کے لنکس

تشدد نہیں دیکھنا چاہتے، پاکستان اور افغانستان کشیدگی ختم کریں: جان کربی


ترجمان محکمہ خارجہ جان کربی (فائل فوٹو)
ترجمان محکمہ خارجہ جان کربی (فائل فوٹو)

امریکہ خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے تمام ممالک سے اپنے تصفیہ طلب معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتا آیا ہے۔

امریکہ نے کہا ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان صورتحال کو خراب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا اور دونوں ملکوں پر زور دیتا ہے کہ وہ کشیدگی کو پرامن طریقے سے دور کریں۔

حالیہ ہفتوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر کشیدگی میں اضافہ دیکھا گیا ہے جب کہ رواں ہفتے اہم سرحدی گزرگاہ طورخم پر دونوں جانب کی سکیورٹی فورسز کے مابین فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا جس میں دونوں جانب جانی نقصان بھی ہوا ہے۔

منگل کو واشنگٹن میں معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ترجمان امریکی محکمہ خارجہ جان کربی نے کہا کہ امریکہ صورتحال کا قریب سے جائزہ لے رہا ہے۔

"ہم دونوں جانب کے حکام سے رابطے میں ہیں، ہم تناؤ کے پرامن حل پر زور دیتے رہیں گے۔ ہم جھڑپیں نہیں دیکھنا چاہتے، ہم تشدد نہیں دیکھنا چاہتے، ہم صورتحال کو مزید خراب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔"

طورخم میں پاک افغان سرحدی گزرگاہ
طورخم میں پاک افغان سرحدی گزرگاہ

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان و پاکستان رچرڈ اولسن نے دونوں ملکوں کے اپنے حالیہ دورے میں عہدیداروں سے ہونے والی ملاقاتوں میں ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔

پاکستان کا اپنی مشرقی سرحد پر روایتی حریف بھارت کے ساتھ بھی فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا جس سے دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے مابین بھی تناؤ میں اضافہ ہوا تھا اور اب مغربی سرحد پر افغانستان فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے سے خطے میں کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

امریکہ خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے تمام ممالک سے اپنے تصفیہ طلب معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتا آیا ہے۔

حالیہ مہیںوں میں پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں جس کی وجہ ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی خریداری کے لیے امریکہ کی طرف سے پاکستان کو 40 کروڑ ڈالر سے زائد کے زر اعانت کو روکنے اور پھر فوجی امداد کو مشروط کرنے جیسے اقدام ہیں۔

پاکستان کو ملنے والی کروڑوں ڈالر کی امداد کو دہشت گردوں کے خلاف اس کی "تسلی بخش" کارروائیوں سے مشروط کیا گیا ہے۔ اسلام آباد اس پر یہ کہہ کر تنقید کرتا ہے کہ اس نے اپنے ہاں موجود تمام دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں جس کے حاصل ہونے والے نتائج کو عالمی برادری نے بھی تسلیم کیا ہے۔

شمالی وزیرستان میں آپریشن میں مصروف پاکستانی فوج
شمالی وزیرستان میں آپریشن میں مصروف پاکستانی فوج

منگل کو محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی سے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے مبینہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کے ضمن میں پوچھا گیا کہ آیا "لیہے قانون" کے تحت امریکہ پاکستان کے لیے امداد روک سکتا ہے؟

ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں پیش آنے والے ایسے واقعات کے بارے خاص طور پر تو کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن امریکہ کو دنیا بھر میں ماورائے عدالت قتل، دوران حراست اموات، جبری گمشدگیوں اور اغوا سے متعلق خبروں پر تشویش ہے۔

"ہم خطے میں باقاعدگی سے ہونے والی دو طرفہ ملاقاتوں میں انسانی حقوق سے متعلق امور بھی اٹھاتے رہے ہیں۔ ہم ایسے الزامات کی شفاف طریقے سے تحقیقات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔۔۔جو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوں۔"

لیہے قانون کے تحت امریکی محکمہ خارجہ اور دفاع کسی بھی دوسرے ملک کی فوجی یونٹس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے پر فوجی امداد دینے پر قدغن لگاتا ہے۔

ترجمان جان کربی نے کہا کہ "لیہے قانون پر امریکہ، پاکستان سے متعلق بھی عمل کرتا ہے اور پاکستانی فوج کے لیے کوئی بھی امداد نہ جا سکتی ہے اور نہ جاتی ہے اگر اس کے یونٹس کے (انسانی حقوق کی) خلاف ورزیوں میں ملوث ہونا مصدقہ ہو۔"

پاکستان، انسداد دہشت گردی میں امریکہ کا قریبی اتحادی ہے اور واشنگٹن یہ کہہ چکا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنی شراکت داری کو جاری رکھنے کے عزم پر قائم ہے۔

XS
SM
MD
LG