رسائی کے لنکس

امریکہ کے مڈ ٹرم انتخابات کیلئے سیاسی موسم گرم


امریکی ریاست ہوائی میں انتخابی مہم کا منظر۔ فائل فوٹو
امریکی ریاست ہوائی میں انتخابی مہم کا منظر۔ فائل فوٹو

امریکہ میں مڈ ٹرم انتخابات اب سے تین ماہ بعد نومبر میں ہونے والے ہیں جن کیلئے سیاسی درجہ حرارت ابھی سے بڑھنا شروع ہو گیا ہے۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ ان مڈ ٹرم انتخابات کے نتیجے میں صدر ٹرمپ کی صدارت کو خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ان انتخابات کیلئے حال ہی میں ہونے والے پرائمری اور خصوصی انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کی دونوں بڑی جماعتیں ڈیموکریٹک پارٹی اور رپبلکن پارٹی ٹکراؤ کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ مڈ ٹرم انتخابات کیلئے ووٹروں کے جذبے میں بھی شدت سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

امریکہ کے ایک معروف جریدے ’پولیٹیکو‘ کی طرف سے کئے گئے ایک جائزے میں 66 فیصد ووٹروں کا کہنا تھا کہ وہ نومبر میں ہونے والے مڈٹرم انتخابات میں ووٹ ڈالنے کیلئے پر عظم ہیں جبکہ صرف 9 کا کہنا تھا کہ وہ ووٹ نہیں ڈالیں گے۔

جائزے میں مزید بتایا گیا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے 51 ووٹر ان انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے منتظر ہیں جبکہ رپبلکن پارٹی کے 43 فیصد ووٹروں کا کہنا تھا کہ وہ بھی ووٹ ضرور ڈالیں گے۔

ریاست ورمونٹ سے امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے آج کینساس میں ایک انتخابی ریلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگ پورے جذبے کے ساتھ نومبر کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے اور امریکہ کی سیاست اور معیشت میں تبدیلی لانے کے منتظر ہیں۔

ماضی میں رپبلکن پارٹی کے دور حکومت میں بارہا یہ ہوا ہے کہ رپبلکن پارٹی کے صدر کی پہلی مدت کے دوران ہونے والے مڈ ٹرم انتخابات میں یہ جماعت بہت سی سیٹوں سے محروم ہو گئی خاص طور پر اگر رپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی صدر کی مقبولیت کی شرح 50 فیصد سے کم ہو۔

حالیہ ترین گیلپ سروے کے مطابق اس وقت صدر ٹرمپ کی مقبولیت کی شرح 39 فیصد ہے جو کچھ عرصہ پہلے کے مقابلے میں قدرے کم ہوئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اوہائیو ریاست میں ایک انتخابی ریلی میں رپبلکن ووٹروں کو متحرک کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ جیت رہا ہے کیونکہ ہم ’امریکہ پہلے‘ کی پالیسی پر کاربند ہیں۔

واشنگٹن میں ایک معروف تھنک ٹینک ’بائی پارٹیسن پالیسی سینٹر ‘ کے جان فرنٹیئر کا کہنا ہے کہ اگرچہ رپبلکن ووٹر بھی خاصے متحرک دکھائی دیتے ہیں، لیکن اُن کیلئے ڈیموکریٹک ووٹروں کے جذبے کا مقابلہ کرنا دشوار دکھائی دیتا ہے۔ یوں اس بات کا قوی امکان ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی ایوان نمائیندگان کا یا تو کنٹرول سنبھال لے گی یا پھر اُس کی سیٹوں میں خاصا اضافہ ہو جائے گا۔

ایک اور امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے سکالر جان ہوڈیک کا کہنا ہے کہ اُن کے خیال میں بہت سے حلقوں کی انتخابی مہم میں صدر ٹرمپ کی شمولیت سے رپبلکن اُمیدواروں کے بجائے ڈیموکریٹک اُمیدواروں کو زیادہ فائدہ ہو گا ۔ یوں صدر ٹرمپ کیلئے یہ طے کرنا بہت اہم ہو گا کہ وہ انتخابی مہم کے سلسلے میں کن ریاستوں میں خود جانے کا انتخاب کریں۔

کچھ انتخابی جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ پرائمری انتخابات میں صدر ٹرمپ کو ملازمت پیشہ شہری ووٹرز کی خاصی حمایت حاصل ہے۔ تاہم بہت سی خواتین اور مضافاتی علاقوں کے ووٹرز رپبلکن پارٹی سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔

اس وقت ڈیموکریٹک پارٹی کو ایوان نمائیندگان کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کیلئے تقریباً 25 مزید سیٹوں کی ضرورت ہے جبکہ اسے سینیٹ میں محض دو مزید سیٹیں درکار ہیں۔

XS
SM
MD
LG