رسائی کے لنکس

دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اوباما انتظامیہ کی پالیسی


دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اوباما انتظامیہ کی پالیسی
دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اوباما انتظامیہ کی پالیسی

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس ملک کو ایسے دشمن کا سامنا ہے، جس کی لڑائی کا نظریہ بڑی مشکل سے حاصل کیے گئے جنگجو اور غیر جنگجو کے جدید تصور کو ختم کردیتا ہے۔ اس جنگ میں ہم، ان اقدار کے تحفظ کے لیے جس کی خاطر ہم نے زندگی کے تحفظ ، آزادی اور خوشیوں کے حصول کے لیے حکومت تشکیل دی ہے، کس طرح زیادہ تند دہی سے کا م کرسکتے ہیں، بہت دشوار کام ہے۔ اس سلسلے میں ہم کسی سستی یا لاپرواہی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

کرسمس کے روز ہم نے ڈیٹرائٹ میں غلط کام کیا تھا۔ ہم نے ایک جنگجو دشمن کو مناسب جانچ پڑتال کے بغیرطیارے میں سوار ہونے کی اجازت دے دی۔ عمر فاروق عبدالمطلب کوئی ایک تنہا انتہاپسند نہیں تھا۔ وہ ہماری سرزمین پر امریکیوں کو ہلاک کرنے کے لیے القاعدہ کے پیچیدہ منصوبے کا ایک حصہ تھا۔


ایف بی آئی نے 50 منٹ کی سخت پوچھ گچھ کے بعد اس سے مفید معلومات حاصل کرلیں ۔ لیکن کیا جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کے معاملات پر عبور رکھنے والا کوئی ماہر بھی وہاں موجود تھا؟ کیا وہاں قومی سلامتی کے ادارے کا کوئی ایسا رکن موجود تھا جو گرفتار دہشت گردوں کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں کچھ جانتا ہو؟ کیا ان کے پاس مشتبہ زیرتریبت افراد کی کوئی فہرست یا تصاویر موجود تھیں؟

اس سلسلے میں عام طورپرسی آئی اے پوچھ گچھ سے حاصل کردہ تفصیلات تصدیق اور مزید پیش رفت کے حوالے سے سفارشات کے لیے ماہرین کے پاس بھیج دیتی ہے۔ ماہرین کا عمومی ردعمل یہ ہوتا ہے کہ وہ بہت کچھ جانتا ہے، اس پر مزید دباؤ ڈالا جائے۔


لیکن ڈیٹرائیٹ میں ایسا نہیں ہوا۔ پہلے سیشن کے بعد ایف بی آئی نے عبدالمطلب کو تفتیش کاروں کی ایک ایسی ٹیم کے پاس بھیج دیا جن کے پاس اس بارے میں کوئی معلومات موجود نہیں تھیں کہ عبدالمطلب اس سے پہلے کیا کہہ چکاہے۔ اور پھر جیسا کہ یہ بڑے پیمانے پر سامنے آچکا ہے کہ عبدالمطلب نے اپنے خاموش رہنے کے حق کا استعمال کیا۔
اپنا عہدہ سنبھالنے کے دو روز بعد صدر اوباما نے ایک حکم کے ذریعے تفتیش کے ان طریقوں پر حکومتی اداروں کےعمل درآمد کو محدود کردیا جس کی اجازت فوج کے فیلڈ مینول میں دی گئی ہے۔ سی آئی اے نے اس حکمنامے کا حتمی ڈرافٹ ا س کے اجرا سے قبل نہیں دیکھا تھا ۔ اس بارے میں بھی کوئی دعویٰ نہیں کیا گیا تھا کہ وہ مینوئل قانونی ضابطوں کے خلاف تھا ۔ ان ضابطوں کی اس وقت ملک کو ضرورت ہے۔

ایک ایسی طرح کا ڈرامہ محکمہ انصاف کی جانب سے اپریل میں جاری ہونے والی یاداشتوں کے ذریعے سامنے آیا، جس میں سی آئی اے کے تقتیشی پروگرام کی اجازت دی گئی تھی۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینٹا اور کئی سابقہ ڈائریکٹروں نے آزادی اظہار کے قانون کے حوالے سے ایک مقدمے میں صرف قانونی بنیادوں پر ان یاداشتوں کو عام کرنے کے اقدام کی مخالفت کی، کہ یہ دستاویزات قانونی طورپر اب بھی خفیہ ہیں اور ان کی اشاعت سے قومی سلامتی کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اس پالیسی کے حوالے سے صدر نے سی آئی اے کے سربراہ کی بجائے اٹارنی جنرل کی حمایت کی۔ اگست میں ایک بار ماضی کی جانب نہ دیکھنے اور سی آئی اے پر اعتراضات ختم کرنے کی صدر کی پالیسی کے خلاف، محکمہ انصاف نے تفتیشی پروگرام کے بارے میں سی آئی اے کے انسپکٹر جنرل کی رپورٹ کو جاری کرنے پر دباؤ ڈالا۔

محکمہ انصاف نے سی آئی اے کے ان عہدے داروں کے خلاف تحقیقات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا جوکئی سال پہلے تفتیش کار کا اپنا کردار ختم کرچکے تھے اوراس بارے میں پینٹا گان اور کئی سابق عہدے دار یہ کہہ چکے تھے کہ ایسا کرنا غیر مناسب ہوگا۔

نومبر میں محکمہ انصاف نے یہ اعلان کیا کہ وہ ستمبر 2001ء کے حملوں کے سلسلے میں خالد شیخ محمد اورکئی دوسرے افراد کا مقدمہ سویلین کورٹ میں چلانا چاہتی ہے۔ وہائیٹ ہاؤس نے یہ واضح کیا کہ یہ محکمہ انصاف کا فیصلہ ہے، لیکن یہ بات اس لیے غلط تھی کہ کئی دوسرے قیدیوں پر فوجی کمشن کے تحت مقدمے چلائے جارہے تھے اور اس حوالے سے بیان کی گئی وجوہات قانونی نہیں بلکہ سیاسی تھیں۔

انٹیلی جنس کے عہدے داروں کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ان کی پشت پر موجود ہو۔ اپریل میں محکمہ انصاف کی جاری کردہ یاداشتوں کے بعد سی آئی اے کے عہدے داروں نے یہ سوال اٹھانے شروع کردیے ہیں کہ اس وقت وہ جو کچھ کررہے ہیں کیا ان کی تفصیلات پانچ سال میں عام لوگوں کے لیے جاری کردی جائیں گی۔ اور کوئی ایسا نہ ہونے کی ضمانت نہیں دے سکتا۔

کچھ لوگ اس بارے میں مسرت کا اظہار کرسکتے ہیں کہ محکمہ انصاف پچھلے ایک سال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نمایاں طور آگے آگیا ہے۔ لیکن ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسرت کی اس لہر کے ختم ہونے کےبعد کیا ہوگا۔

ابھی تک بظاہر کسی نے بھی کرسمس کے روز دہشت گردی کی ناکام کوشش پر عبدالمطلب کے حوالے سے سفارشات پیش نہیں کی ہیں، جیسا کہ ایک جنگجودشمن سے نمٹنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قومی سلامتی کے ڈائریکٹر ڈینی بلیئر نے کہا ہے کہ اس مہینے کانگریس میں ہونے والی سماعت سے کچھ امید پیدا ہوئی ہے۔

درحقیقت بلئیر نے یہ تجویز دی ہے کہ اگست میں انتظامیہ نے اہم قیدیوں سے تقتیش کے لیے جن گروپوں کا اعلان کیا تھا، انہیں اس مقصد کے لیے بلایا جائے۔ ایک حکومتی ترجمان نے کہاہے کہ فی الحال ایسے کسی گروپ کا وجود نہیں ہے۔

آخری غلط چیز یہ ہے کہ اگست میں حکومت نے القاعدہ سے متعلق تفتیش کے لیے جس گروپ کا اعلان کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ ایف بی آئی، 2004 کی انسپیکٹر جنرل کی رپورٹ میں بیان کی گئی مبینہ بدسلوکی کے بارے میں سی آئی اے کے عہدے داروں سے پوچھ گچھ شروع کرے۔

وہ بظاہر ابھی تفتیش کے لیے منظم ہورہے ہیں۔ لیکن سی آئی اے کے عہدے داروں کے خلاف تحقیقات کا عمل جاری ہے۔

XS
SM
MD
LG