رسائی کے لنکس

دیسی رانجھے اور پردیسی ویلنٹائن


لاہور کی ایک سڑک پر نوجوان ویلنٹائنز ڈے کی تیاری میں مصروف
لاہور کی ایک سڑک پر نوجوان ویلنٹائنز ڈے کی تیاری میں مصروف

دوسری جانب دیہاتوں میں 'محبت' کا مطلب جان پر کھیلنا ہے۔ غیرت کے نام پر جانے کتنی محبتیں قربان ہوجاتی ہیں اور پسند کی شادی کرنے والے کتنے ہی دیہاتی نوجوانوں کو اپنی حفاظت کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہونا پڑتاہے

پاکستانی معاشرے میں جہاں اور بہت سی چیزوں کو دوہرے معیار کا سامناہے، وہیں محبتوں کے معاملات بھی اس سے الگ نہیں ہیں ۔ 14 فروری کو شہروں میں ویلنٹائنز ڈے کچھ اس طرح منایا گیا جیسے یورپ کو پیچھے چھوڑنے کی دوڑ لگی ہو ۔۔۔ اور دوسری جانب دیہاتوں میں 'محبت' کا مطلب جان پر کھیلنا ہے۔ غیرت کے نام پر جانے کتنی محبتیں قربان ہوجاتی ہیں اور پسند کی شادی کرنے والے کتنے ہی دیہاتی نوجوانوں کو اپنی حفاظت کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہونا پڑتاہے۔

اسے اتفاق کہئے یا قدرت کی مہربانی، کراچی میں ویلنٹائز ڈے کا سورج تپش و تمازت کے بغیر طلوع ہوا۔ لگتا تھا کہ اب برسا اور جب برسا۔۔۔ ایسے میں ویلنٹائن منانے والوں کی موج مستی ہوگئی۔ ۔۔ اور ہوتی بھی کیوں ناں!! غالباً صبح کے اخبارات میں موبائل فون کمپنی والوں کے اشتہارات کی بھر مار تھی۔ سب کی اسکیمیں ایک جیسی تھیں۔۔ اتنے ایس ایم ایس کیجئے۔۔۔ اپنے چاہنے والے کو فلاں گانا سنوائیے۔۔ فلاں طریقے سے کیجئے پیار کا اظہار۔۔۔ اور فلاں سے فلاں وقت تک کیجئے پیار بھری باتیں ۔۔ اور وہ بھی نصف ریٹ پر۔۔۔!!!!

راشد منہاس روڈ پر یوں ہی چلتے چلتے ایک عاشق مزاج سے ملاقات ہوگئی ۔ کہنے لگے آج مدتوں بعد صبح کا موسم اتنا اچھا دیکھ رہا ہوں۔۔۔ کیا روز ایسا ہی موسم ہوتا ہے؟۔۔۔ انکار پر مسکرادیئے اور استفسار پر فرمایا میں تو روزانہ چار پانچ بجے سوتا ہوں ۔۔۔ دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں اٹھتا ہوں۔۔۔ رات بھر انجوائے کرتا ہوں۔۔۔ 'چاہنے والوں'کے فون ہی سونے نہیں دیتے۔۔۔ پھر دن میں تو فون کالز کے ڈبل پیسے کون دے۔۔۔ آج تو ویلنٹائنز ڈے ہے۔۔ گفٹ خریدنے نکلا ہوں۔۔۔ کچھ لے چکا ہوں پہلے ہی، کچھ آج خریدوں گا۔۔!!

یہ کسی ایک نوجوان کا قصہ نہیں ۔۔ تبدیلی کی ایسی ہوا چلی ہے کہ اب اکثریت کا ہی حال نرالا ہے۔ ثبوت۔۔۔؟ ثبوت یہ ہے کہ کلفٹن کا پوش علاقہ اور اس کی مارکیٹیں پچھلے کئی دنوں سے سرخ پھولوں، سرخ کارڈز، سرخ رنگ کے نرم و گداز دل کی شکل والے تکیوں، چاکلیٹوں اور اس جیسی کتنی ہی قسم کی سرخ چیزوں سے بھری پڑی تھیں ، ویلنٹائنز ڈے کی شام ہونے تک خالی خالی سی محسوس ہونے لگیں۔ ۔۔ اور سمندر کنارے تمام ہی ہوٹلز ہوں یا موٹلز، سب کے سب 'سرخ چہروں' سے بھرے ملے۔ فرنچائز ہوٹلز میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ تمام دن ٹیلی فون نیٹ ورکس تو بزی رہے ہی 'دل کے بیماروں' نے قائد اعظم کے مزار سے لے کر بن قاسم پارک تک کو نہ چھوڑا۔ سب کے سب بھرے پڑے تھے۔

میڈیا نے بھی اس موقع کو غنیمت جانا اوربڑھ چڑھ کر ویلنٹائنز ڈے کو پروموٹ کیا۔ ایک نیوز چینل نے تو کل ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ 14 فروری کودن بھر کے ہر خبرنامے میں دیکھئے ویلنٹائن اسپیشل اسٹوری۔۔۔ اور تو اور رات12 بجے تک فوڈ چینلز پر بھی ویلنٹائن کے حوالے سے خاص کھانے پکانا سکھائے جاتے رہے۔

اس بار ایک اور تبدیلی بھی دیکھی گئی۔۔۔ گذر جانے والے برسوں میں قدامت پسند سوچ رکھنے والے افراد تنظیمیں اس دن کو خوب برا بھلا کہتی تھیں۔ مگر اس بار لگتا ہے کہ جیسے وہ تھک سے گئے ہیں یا پھر اس بار ان کی توجہ کسی اور جانب ہے۔

ڈیفنس کے بعض علاقے ایسے بھی تھے جہاں رات گئے تک 'نازک اداوٴں' پر دل ہارنے والے ' کینڈل ڈنر' کرتے رہے۔ ایک صاحب ایسے بھی ملے جو بس اسٹاپ کے قریب بجلی کے کھمبے سے لگے خالی خالی نگاہوں سے آسمان کو تک رہے تھے۔۔۔ بے تکلفی تھی سو ہم سے مخاطب ہوکر بولے ۔ لگے ہیں شمع پر پہرے زمانے کی نگاہوں کے۔۔۔ جنہیں جلنے کی حسرت ہے وہ پروانے کہاں جائیں ۔۔۔

یہ کہتے کہتے ان کا گلا رند ھ گیا اور آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ ان کی اداسی کا سبب جان کر ہم افسوس اور ہمدردی کا اظہار کرنے ہی والے تھے کہ ان کا موبائل بج اٹھا ۔۔۔جانے دوسری جانب کون تھا کہ جیسے جیسے بات بڑھتی گئی ان کی آنکھیں روشن اور چہرہ گلنار ہوتا گیا۔۔ ۔۔ پھر اچانک وہ معذرت کرتے ہوئے تیزی سے بس کی جانب یہ کہتے ہوئے بھاگے کہ یار معاف کرنا ایک کا نہ سہی دوسری محبت کا فون تو آہی گیا۔۔۔ تو میں چلا اپنے ویلنٹائن کے پاس۔۔۔۔۔

XS
SM
MD
LG