رسائی کے لنکس

بی جے پی ترجمان کی مبینہ توہینِ اسلام پر کانپور میں ہنگامے، 40 افراد زخمی


بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ترجمان نوپور شرما کی جانب سے مبینہ توہین اسلام کے خلاف کانپور میں پرتشدد ہنگاموں کے دوران پولیس اہلکاروں سمیت 40 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔

پولیس کمشنر وجے سنگھ مینا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کے الزام میں 36 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جب کہ ایک ہزار نامعلوم افراد کے خلاف تین ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔

پولیس کے مطابق جمعے کی نماز کے بعد مسلمانوں کے ایک گروپ نے نئی سڑک اور یتیم خانہ علاقے میں دکانیں بند کرانی شروع کر دیں۔ دوسرے طبقے نے اس کی مخالفت کی اور پھر تشدد پھوٹ پڑا جس کے وران پتھراؤ ہوا اور پیٹرول بم پھینکے گئے۔

کانپور کی ضلع مجسٹریٹ نیہا شرما کے مطابق ایک مخصوص طبقے کے لوگوں نے سڑک پر آکر احتجاج شروع کیا جس کے دوران تشدد ہوا۔

پولیس کے مطابق متاثرہ علاقے میں اضافی پولیس فورس تعینات ہے اور حالات قابو میں ہیں۔

سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ایسے وقت میں جب کہ صدر اور وزیر اعظم شہر میں تھے، تشدد ہونا پولیس اور خفیہ مشینری کی ناکامی ہے۔


انہوں نے مزید کہا کہ بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما کے قابلِ اعتراض اور اشتعال انگیز بیان کی وجہ سے بدامنی پیدا ہوئی۔ اس لیے انہیں فوری طور پر گرفتار کیا جانا چاہیے۔

یاد رہے کہ ایک سرکاری پروگرام میں شرکت کی غرض سے صدر رام ناتھ کووند، وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ یوگی آتیہ ناتھ جمعے کو اس وقت کانپور میں موجود تھے جب ہنگاموں کا سلسلہ جاری تھا۔

اسی درمیان ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (لا اینڈ آرڈر) پرشانت کمار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس تشدد کے پیچھے ایک مسلم رہنما ظفر حیات ہاشمی کی شناخت ہوئی ہے جن 40 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ان میں ان کا بھی نام شامل ہے۔

ظفر حیات ہاشمی ایک تنظیم ’مولانا محمد علی جوہر فینز ایسو سی ایشن‘ کے صدر ہیں۔ انہوں نے مبینہ توہین اسلام کے خلاف احتجاج کی کال دی تھی۔ پولیس کے مطابق انہوں نے ہی لوگوں کو پتھراؤکے لیے اکسایا تھا۔

جوائنٹ پولیس کمشنر آنند پرکاش تیواری کے مطابق پولیس نے متعدد افراد کو حراست میں لیا ہے، ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

اترپردیش کے سابق وزیر محسن رضا نے دعویٰ کیا ہے کہ ایسے وقت جب کہ صدر، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ شہر میں تھے، منصوبہ بندی کے تحت تشدد برپا کیا گیا۔ پہلے پانچ جون کو مظاہرے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن وہ تین جون کو ہی ہو گیا۔

کانپور کے قاضی مولانا عبد القدوس نے نشریاتی ادارے ’انڈیا ٹوڈے‘ سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ تشدد کا آغاز دوسرے طبقے کے لوگوں نے کیا۔ ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما کا بیان مسلمانوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ ہم پولیس کمشنر سے بات کریں گے کہ یکطرفہ طور پر کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔ دوسرے طبقے کے ان لوگوں کے خلاف بھی ایف آئی آر درج ہونی چاہیے جنہوں نے تشدد کا آغاز کیا۔

خیال رہے کہ بی جے پی ترجمان نوپور شرما نے ایک نشریاتی ادارے ’ٹائمز ناؤ‘ پر گیان واپی مسجد کے سلسلے میں ہونے والے مباحثے میں مبینہ طور پر اسلام اور پیغمبر اسلام کے حوالے سے متنازع گفتگو کی تھی۔


اُس وقت ایک تنظیم ’مسلم پولیٹیکل کونسل آف انڈیا‘ (ایم پی سی آئی) کے صدر ڈاکٹر تسلیم رحمانی اور ان کے درمیان سوال جواب کا سلسلہ چل رہا تھا۔ ان کے مبینہ قابلِ اعتراض کلمات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے تسلیم رحمانی نے خود کو مباحثے سے الگ کر لیا تھا۔

ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے یکم جون کو بی جے پی، نوپور شرما، ٹائمز ناؤ اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کو قانونی نوٹس بھجوایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی نے بھی تاحال اس نوٹس کا نہ تو کوئی جواب یا ہے اور نہ ہی کوئی وضاحت آئی ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ پندرہ روز تک ان کے جواب کا انتظار کریں گے۔ اگر اس دوران کوئی جواب نہیں آیا تو وہ سپریم کورٹ سے رُجوع کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے بی جے پی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں سے غیر مشروط معافی مانگے اور اپنے ترجمان کو بنیادی رکنیت سے برخاست کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ہم قانونی کارروائی کے لیے مجبور ہو جائیں گے۔

یاد رہے کہ بی جے پی مذہبی علامتوں کے استعمال کے جواز کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتی ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ ہندوازم مذہب نہیں بلکہ ایک طرزِ حیات ہے۔

ماضی میں اس کا یہ موقف رہا ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے خلاف بیان نہیں دیتی اور نہ ہی کسی مذہب کی توہین کرتی ہے۔ تاہم اس حالیہ واقعہ کے بعد بی جے پی کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

ادھر نوپور شرما کے خلاف اب تک تین ایف آئی آر، دو مہاراشٹراکے مختلف شہروں اور ایک حیدر آباد میں، درج کی جا چکی ہیں۔ لیکن ابھی تک ان کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG