رسائی کے لنکس

’کمپیوٹر وائرس کے خلاف حکمتِ عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے‘


’کمپیوٹر وائرس کے خلاف حکمتِ عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے‘
’کمپیوٹر وائرس کے خلاف حکمتِ عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے‘

انٹر نیٹ پر ہیکرز کے حملوں کے خطرے سے بچنے کے لیے کمپیوٹر پروگرامرز اور کمپیوٹر استعمال کرنے والوں کو سیکیورٹی کے حوالےسے نئے اقدامات کا زیادہ احترام کرنا چاہیئے۔

حالیہ کچھ عرصے میں گوگل اور تقریباً ایک سو کمپنیوں پر ہونے والے سائبر حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ صرف عام وائرس سیکنرز پر ہی بھروسا کرنا کافی نہیں ہے۔

کمپیوٹر سیکیورٹی کی بین الاقوامی کمپنی اے وی جی کے چیف سیکیورٹی افسر راجر ٹامسن کہتے ہیں کہ سب سے خطرناک سائبر حملہ وہ ہوتا ہے جس کے بارے میں آپ کچھ نہیں جانتے۔

وہ کہتے ہیں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مخصوص وائرس اور مضر کوڈ کا کھوج لگانے والے سافٹ ویر کی بجائے لوگوں کو مختلف قسم کے ایسے اینٹی وائرس پروگرام استعمال کرنے پر قائل کرنا چاہیئے جو کسی مشتبہ طرز عمل کا پتا چلا سکیں۔

کسی مشتبہ طرز عمل کی ایک مثال کسی مضر پروگرام کا ایسا کوڈ ہوسکتا ہے جو کسی دفتری دستاویز کے کھلتے ہی خود سے انسٹال ہونے کی کوشش کرے۔

اس خطرے کو کم کرنے کے لیے ٹامسن کمپیوٹروں میں طرز عمل کی جانچ سے متعلق کسی پروگرام کے اضافے کی تجویز دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی مخصوص کوڈ آپ کے کمپیوٹر پر اس سے پہلے کبھی ظاہر نہ ہوا ہو تو وہ پروگرام آپ کو بتائے گا کہ یہ ایک مشتبہ چیز ہے۔

ٹامسن کہتے ہیں کہ دنیا میں روزانہ ہر اینٹی وائرس لیب میں مضر کوڈ کے ہزاروں نئے اور منفرد نمونے ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ ان خطرات پر کسی رد عمل کو ظاہر کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہیکرز اینٹی وائرس لیبارٹریوں میں ابہام پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر وائرس بناتے ہیں اور انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ پانچ سے دن کے اندر یہ تمام وائرس اینٹی وائرس پروگرام میں شامل کر دیے جائیں گے۔ لیکن اسی دوران 20 سے 30 ہزار تک نئے وائرس بن جاتے ہیں۔

ٹامسن کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ کی سیکیورٹی کے معاملات کا مقابلہ سائبر دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کی روشنی میں کیا جانا چاہیئے۔ وہ جنوری میں حماس کے ایک کمانڈر کے مبینہ قاتلوں کی جانب سے جعلی سفارتی پارسپورٹ کے مبینہ استعمال کا حوالہ دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر 11 یا 12 لوگ جعلی پاسپورٹوں پر ملک میں داخل ہوئے، ایک شخص کو قتل کیا اور ملک سے باہر چلے گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ جعلی پاسپورٹ اور شناخت کی چوری، یہ سب پرائیویسی کے اسی قسم کے فقدان کا حصہ ہیں۔ آج کی دنیا میں لوگ بڑے بڑے خطرات مول لے لیتے ہیں۔

اب جب کہ حکومتیں انٹرنیٹ پر حملوں کے واقعات پر زیادہ توجہ دے رہی ہیں، ٹامسن کا خیال ہے کہ حکومتوں کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ وہ ان چوروں سے ایک قدم آگے کیسے رہیں۔ آج کے دور میں ہماری پرائیویسی ماضی کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے اور تقریباً کسی بھی شخص کے بارے میں کسی بھی وقت کسی طرح کی بھی معلومات کا پتا چلانا ممکن ہے۔

ٹامسن نے یہ باتیں ایسے وقت بتائی ہیں جب اسی ہفتے سان فرانسسکو میں سائبیر سیکیورٹی پر دنیا کی سب سے بڑی کانفرنس جاری ہے۔

آرایس اے نامی اس کانفرنس میں آئی ٹی کے ماہرین، سافٹ ویر بنانے والے اور پالیسی ساز، سائبر حملوں، سائبردہشت گردی، شناخت کی چوری، محفوظ ویب سروسز اور اسی طرح کے دوسرے موضوعات پر تبادلہ خیالات کر رہے ہیں۔

اس کانفرنس میں امریکہ میں سائبیر سیکیورٹی کے لیے حال ہی میں مقرر کیے گئے عہدے دار ہاورڈ شمٹ، ہوم لینڈ سیکیورٹی کے وزیر جینٹ نیپولی ٹینو اور ایف بی آئی کے ڈائریکٹر رابرٹ ملر کی شرکت متوقع ہے۔

XS
SM
MD
LG