رسائی کے لنکس

افغانستان میں  'ممکنہ جنگی جرائم' کی تحقیقات کا کوئی جواز نہیں


ہیگ میں جرائم کی عالمی عدالت کی عمارت (فائل فوٹو)
ہیگ میں جرائم کی عالمی عدالت کی عمارت (فائل فوٹو)

جرائم کی عالمی عدالت کے استغاثہ کے دفتر کی سربراہ فتو بین سیوڈا نے کہا کہ بہت جلد اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا ایک جامع تحقیقات شروع کی جا ئے یا نہیں۔

امریکہ کے محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکی فورسز کی ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کی نا " ضرورت ہے نا ہی یہ مناسب" ہے۔

ہیگ میں قائم جرائم کی بین الاقوامی عدالت کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسی وجوہات موجود ہیں جن کی بنیاد پر ایسی تحقیقات کا جواز بنتا ہے۔

محکمہ خارجہ کی ترجمان الزبیتھ ٹروڈو نے کہا کہ امریکہ نے نا ہی آئی سی سی کے دائرہ کار کی تا ئید کی ہے اور نا ہی ریاست ہائے متحدہ امریکہ روم ضابطے میں فریق ہے جس کے تحت جرائم کی بین الاقوامی عدالت کا ہیگ میں قیام عمل میں آیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسی شکایت سے نمٹنے کے لیے واشنگٹن کا اپنا ایک مضبوط نظام انصاف موجود ہے۔

الزبیتھ نے ایک نیوز بریفنگ میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ "امریکہ جنگ کے قوانین کو تسلیم کرتا ہے۔"

" ہم نہیں سمجھتے کہ افغانستان کی صورت حال کے تناظر میں آئی سی سی کی طرف سے امریکی اہلکاروں کے اقدامات کی تحقیقات یا ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے یا یہ مناسب ہیں۔"

ان کا یہ بیان جرائم کی عالمی عدالت کے استغاثہ کی طرف سے جاری کی جانے والے اس رپورٹ کے ایک دن بعد سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ " ایسا سمجھنے کا مناسب جواز" موجود ہے کہ امریکی فورسز نے افغانستان میں 61 قیدیوں کو' تشدد کا نشانہ' بنایا جبکہ 27 کو سی آئی اے کی حراست میں 'تشدد' کیا گیا۔

جرائم کی عالمی عدالت کے استغاثہ کے دفتر کی سربراہ فتو بین سیوڈا نے کہا کہ بہت جلد اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا ایک جامع تحقیقات شروع کی جا ئے یا نہیں۔

نیویارک اور واشنگٹن میں 11 ستمبر میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد امریکہ نے اس واقعہ میں ملوث القاعدہ کے راہنماؤں کے خلاف 2001 میں فوجی کارروائی کا آغاز کیا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2003 اور 2004 کے عرصے کے دوارن سی آئی اے نے پولینڈ، رومانیہ اور لتھوینیا میں خفیہ حراستی مراکز میں بند افراد پرممکنہ طور پر تشدد کیا۔

امریکہ کے محکمہ انصاف نے 2209 اور 2012 کے درمیان سی آئی اے کی قیدیوں کے ساتھ مبینہ بد سلوکی کی تحقیقات کیں جن میں حراست میں ہونے والی دو اموات کا معاملہ بھی شامل ہے تاہم آخر میں کسی کے بھی خلاف مقدمہ نا چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔

افغانستان میں قتل اور دیگر جرائم سرزد ہونے پر امریکی فوج کے اہلکاروں کے خلاف مقدمات بھی چلائے گئے۔

جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم سے نمٹنے کے لیے 1998 میں آئی سی سی کا قیام عمل میں آیا۔ ٹروڈو نے کہا کہ امریکہ " آئی سی سی کے ساتھ مصروف عمل رہا ہے اور ہم نے آئی سی سی کی ان مقدمات کی تحقیقات اور ان کو چلانے کے لیے آئی سی سی کی حمایت کی ہے جن کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ اس سے امریکہ کے قانون کے مطابق ہماری اقدار کی پیش رفت ہوتی ہے ۔"

تاہم انہوں نے کہا کہ امریکہ کی فوج کو " اعلیٰ ترین ممکنہ معیار " پر رکھا جاتا ہے اور جنگی جرائم کے الزامات سے نمٹنے کے لیے امریکہ کا ایک قابل عمل احتساب کا نظام موجود ہے۔

XS
SM
MD
LG