رسائی کے لنکس

افغان جنگ اور ماؤں کا سانجھا دکھ


قندھار شہر کی 45 سالہ اماں گلہ اور امریکی ریاست آرکنساس کے شہر لٹل راک کی ڈاکٹر بیکی ویٹ سٹون ، جو ایک ماہر نفسیات اور شادیوں کے متعلق مشورے دیتی ہیں، دونوں ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی ہیں۔

وہ دونوں چار براعظموں کی ان ہزاروں ماؤں میں شامل ہیں جن کے بیٹے اور بیٹیاں افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں مارے جاچکے ہیں۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ وہ اب تک ہزاروں عام شہریوں کے ساتھ 50 ہزار فوجیوں کی جانوں کا بھی نذرانہ لے چکی ہے۔

مختلف براعظموں کی چند ماؤں کے ساتھ ، جن کے بچے اس جنگ میں ہلاک ہوچکے ہیں، حالیہ انٹرویوز سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ان کے نزدیک اپنی اولاد کے مقابلے میں سیاست یا نظریے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

ان خواتین کے پیش نظر اب یہ ہے کہ انہیں ہلاک ہوجانے والے بیٹے کے خاندان کا بوجھ کیسے اٹھانا ہے اور اپنے باپ کے سائے سے محروم ہوجانے والے بچوں کی پرورش کیسے کرنی ہے ۔ ان چاروں خواتین کا متفقہ طور پر یہ کہناتھا کہ اس جنگ کو بند ہوجانا چاہیے۔

اماں گلہ ۔۔قندھار

قندھار شہر کے قریب ایک بستی میں رہنے والی اماں گلہ اپنے پوتے پوتیوں کے مستقبل سے پریشان ہے۔ اس کا کہناتھا کہ آج تو میں زندہ ہوں، اگر کل زندہ نہ رہی تو میرے مرحوم بیٹے کے بچوں کا کیا بنے گا۔

اس کا بیٹا باقی افغان کی قومی فوج میں ملازم تھا اور دو سال قبل طالبان کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ بیٹے کی موت کے بعد اب اماں گلہ اپنی بہو اور اس کے تین بچوں کی واحد کفیل ہے۔ اور اس کے پاس آمدنی کا اب وہ ذریعہ بھی نہیں رہا جو پہلے بیٹے کی تنخواہ کی شکل میں موجود تھا۔

افغان حکومت جنگ میں ہلاک ہونے والے اپنے فوجیوں کو پنشن یا کوئی اور معاوضہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتی ۔ اماں گلہ کو اپنی بہو اور پوتے پوتیوں کی پرورش کے لیے عزیزوں اور رشتے داروں کی امداد یا اپنی محنت مزدوری پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

بی بی خان۔ کوہ ہندوکش

افغان سرحد کے قریب واقع کوہ ہندوکش کی ایک خاتون بی بی خان کی کہانی بھی اماں گلہ سے مختلف نہیں ہے۔ پاکستان میں رہنے والی بی بی خان کا بیٹا باقرخان فرنٹیئر فورس میں ملازم تھا ۔ جنوری2011ء میں باقر خان کو اس کے کئی ساتھیوں سمیت طالبان نے یرغمال بنا کر ہلاک کردیا۔بی بی خان کا کہناہے کہ اس کابیٹا معصوم تھا۔ اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا، لیکن پھر بھی اسے ماردیا گیا۔

باقر خان نے اپنے پیچھے پانچ بچے اور ایک بیوہ چھوڑی ہے۔

بی بی خان کو شکوہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے باقر خان کی رہائی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس نے اغوا کاروں کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ طالبان حملے کے وقت میرے بیٹے کے پاس بندوق بھی نہیں تھی۔ اگر ہوتی تو مرنے سے پہلے کم ازکم پانچ دشمنوں کو تو ہلاک کردیتا۔

باقر خان کی بیوی اور اس کے بچوں کی دیکھ بھال اور نگہداشت کی ذمہ داری اب بی بی خان کے سرپر ہے۔

سیف اللہ کی ماں۔ پاکستان

تیسری ماں کا تعلق بھی پاکستان سے ہی ہے۔ اور اس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس کا بیٹا سیف اللہ پاکستانی طالبان میں شامل تھا ۔ مگر وہ کوئی برا آدمی نہیں تھا۔ وہ نیک اور دیندار تھا۔ وہ صرف اچھے کام کرتاتھا۔ اگروہ مجرم ہوتا تو سب سے پہلے میں اس کی مخالفت کرتی۔

سیف اللہ کی ماں کا کہناہے کہ میرا بیٹا کشمیر کے جہاد کے لیے گیا تھا۔ اس نے کوئی جرم نہیں کیا۔

سیف اللہ کو2011ء جنوری میں پولیس نے طالبان سے تعلق کے الزام گرفتار کرلیا۔ اوروہ آٹھ ماہ تک پولیس کی حراست میں رہنے کے بعدنامعلوم حالات میں ہلاک ہوگیا۔ ماں کا کہنا ہے کہ اس کے بدن پر شدید تشدد کے بےشمار نشانات تھے۔

بیٹے کی ہلاکت نے اس کی ماں کو غم سے پاگل کردیا اور وہ دیوانوں کی طرح گلیوں میں اپنے بیٹے کو پکارنے لگی۔

سیف اللہ کے پانچویں بیٹے کی پیدائش اس کی ہلاکت کے ایک ماہ بعد ہوئی۔

اس کی بیوہ اور پانچ بچوں کی کفالت اب اس بوڑھی ماں پر ہے جورشتے داروں اور لوگوں کی مدد سے یہ ذمہ داری اٹھا رہی ہے۔وہ کہتی ہے بیٹوں کو نگلنے والی یہ جنگ اب ختم ہوجانی چاہیے ۔

بیکی ویٹ سٹون۔ آرکنساس

امریکی ریاست آرکنساس کے شہر لٹل راک کی ایک ماں بیکی ویٹ سٹون کہتی ہیں کہ وہ پچھلے سال موسم خزاں میں ایئر پورٹ پر اپنی فلائٹ کا انتظار کررہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری جانب میری بیٹی تھی جو کہہ رہی تھی کہ گھرکے دروازے پر دو میرین فوجی کھڑے ہیں۔ میرا جسم سن ہو گیا اور پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی۔ ایک بہت بری خبر میری منتظر تھی۔

ویٹ سٹون کا بیٹا بنجمن ویٹ سٹون شمٹ میرین فورس میں لانس کارپول تھا ، وہ اکتوبر2011ء میں افغان تنازع کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ویٹ سٹون کہتی ہیں کہ وہ اسے دوسری بار افغانستان بھیجا گیا تھا اور جب اس کی ہلاکت کی خبر آئی تو اسے افغانستان میں گئے ہوئے صرف 30 روز ہوئے تھے۔ اسے بتایا گیا کہ شمٹ کی ہلاکت صوبے ہلمند میں طالبان کے خلاف ایک آپریشن کے دوران گولی لگنے سے ہوئی۔ مگربعدازاں پتا چلا کہ اسے طالبان نے نہیں بلکہ اپنے ہی ایک امریکی فوجی ساتھی نے فرینڈلی فائرنگ میں ہلاک کردیاتھا۔ بعد میں فوج نے شمٹ کے خاندان کو غلط خبر دینے پر معافی مانگ لی ۔

ویٹ سٹون کہتی ہیں کہ میرا بیٹا بغیر لڑے مارا گیا۔ وہ افغان تنازع کی نذر ہوا ۔ مجھے اس جنگ کا کوئی جواز دکھائی نہیں دیتا۔ اور میں نے ذاتی طورپر اس جنگ کوکبھی بھی ایک نظریے کےطورپر قبول نہیں کیا۔

ویٹ سٹون اب امن کے فروغ کے لیے کام کررہی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ بندوق کسی مسئلے کاحل نہیں ہے۔ بندوق مزید مسائل کو جنم دیتی ہے۔ مسائل کادیر پا حل صرف امن کے ماحول میں ہی نکلتا ہے۔

(ریڈیو فری یورپ کی ویب سائٹ سے ماخوذ)

XS
SM
MD
LG