رسائی کے لنکس

عمران خان کی 'جارحانہ' تقریر: مخاطب اپوزیشن تھی یا اسٹیبلشمنٹ ؟


وزیرِ اعظم عمران خان (فائل فوٹو)
وزیرِ اعظم عمران خان (فائل فوٹو)

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے اور اقتدار سے ہٹنے کی صورت میں سڑکوں پر احتجاج کرنے کے بیانات پر تجزیوں اور تبصروں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

اتوار کو ٹی وی پر نشر ہونے والے براہ راست سیشن ' آپ کا وزیرِ اعظم آپ کے ساتھ' میں' ایک شہری کے سوال پر جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اگر وہ اقتدار سے الگ ہوئے تو اپوزیشن جماعتوں کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے اور اُنہیں کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اُن کے لیے اصل پریشانی ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے جس کی وجہ سے وہ رات کو سو بھی نہیں پاتے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن کو للکارا ہے لیکن ساتھ ہی اُنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی پیغام دیا ہے کہ اگر اُنہیں اقتدار سے ہٹایا گیا تو و ہ خاموشی سے گھر نہیں جائیں گے۔

بعض تجزیہ کار عمران خان کی تقریر کو اُن کی حکومت کی ناکامی کے اعتراف کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کو ایسے بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ "سرگوشیوں پر مبنی خبروں پر وزیرِاعظم کو بات نہیں کرنی چاہیے، ایسی باتوں سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ لیکن شاید وہ اُن لوگوں کو وارننگ دینا چاہتے ہیں جو انہیں نکالنا چاہتے ہیں لیکن میرے خیال میں اس بیان کا کوئی اچھا اثر نہیں پڑا۔"

عمران خان کی تقریر عوامی اور سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔
عمران خان کی تقریر عوامی اور سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بظاہر اس بیان کی مخاطب اپوزیشن تھی لیکن اُن کے بقول اس بات سے کئی معنی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی درست ہے کہ وزیرِاعظم عمران خان کے پاس بہت قلیل اکثریت ہے،اگر واقعی حالات بدل گئے تو عدمِ اعتماد مشکل نہیں ہے۔ اس کے لیے فضا بدلنے کی ضرورت ہے جو فی الحال نظر نہیں آ رہی ۔صرف چند ووٹوں کا فرق ہے اور اس فرق کو دور کرنا بہت زیادہ مشکل نہیں ہے۔

وزیراعظم کو خطرہ صرف بری گورننس اور معیشت سے ہے: تجزیہ کار سلمان عابد

تجزیہ کار سلمان عابد کہتے ہیں کہ بظاہر ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ پیغام اپوزیشن کے لیے ہے لیکن دراصل یہ پیغام طاقت کے مراکز کے لیے بھی ہے۔ ایک عرصے سےاسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت کا تذکرہ کیا جا رہا ہے کہ حکومت ختم کرنے کے لیے مختلف آپشنز پر غور ہو رہا ہے۔

اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ وزیرِاعظم نے جو گفتگو کی اس میں اُنہوں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے احتساب اور عدالتی نظام کے بارے میں بات کی ،ان کو لگتا ہے کہ رکاوٹیں اداروں کی طرف سے ہیں۔

سلمان عابد کا کہنا تھا کہ اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے کہ وہ کمزور ہیں یا انہیں آسانی سے نکالا جاسکتا ہے،عمران خان نے طاقت کے مراکز کو بھی اور اپوزیشن کو پیغام دیا ہے کہ اگر ان کے ساتھ ایسا کچھ ہوا وہ زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے اور سخت ردِعمل دیں گے۔

سلمان عابد کا کہنا تھا کہ اس وقت حکومت کو اپوزیشن سے کوئی بڑا خطرہ نہیں لیکن بقول ان کے اس کے لیے بڑا خطرہ بیڈ گورننس اور بگڑتی ہوئی معاشی صورتِ حال ہے۔

اُن کے بقول اگرچہ وزیرِ اعظم نے شرح نمو کے حوالے سے بہت دعوے کیے اور اسے بہت اچھا دکھایا ہے لیکن درحقیقت جب تک عوام تک اس کے ثمرات نہیں پہنچتے اس وقت تک لوگوں میں مایوسی رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ" اپوزیشن کے اندر اس وقت خود کو بہتر متبادل بتانے کا مقابلہ چل رہا ہے ، پی ڈی ایم نے لانگ مارچ کا کہا تو پیپلز پارٹی نے پہلے ہی لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ لہذا وہ خود کو بہتر متبادل بتانا چاہ رہے ہیں، لیکن میرے خیال میں یہ سب آئندہ سال ہونے والے الیکشن کی تیاریاں ہیں۔"

تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ماضی کا ریکارڈ رہا ہے کہ ایسی کوئی بھی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتی جب تک اسٹیبلشمنٹ ایسی کسی تحریک کے پیچھے نہ ہو۔

سلمان عامد کے مطابق اگر ہم ایک لمحے کو مان لیں کہ ایسی کسی کوشش کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ موجود ہے تو پھر عمران خان نے کل جو پیغام دیا ہے وہ ایسی ہی کوششوں کے جواب میں ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے ایسی کوشش کی تو عمران خان سخت ردِعمل دیں گے۔ بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ اسٹیبلشمنٹ ایسی کسی سیاسی مہم جوئی کے موڈ میں ہے۔

سیاسی جماعتوں کا ردعمل

وزیراعظم کے اس بیان پر گزشتہ روز سے ہی ردِعمل آنا شروع ہو گیا تھا اور مختلف سیاسی شخصیات نے اس بارے میں بیان دیے۔

سب سے پہلے مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ آپ کی دھمکیاں کہ اقتدار سے نکالا گیا تو مزید خطرناک ہوجاؤں گا، گیدڑ بھبکیوں کےسوا کچھ نہیں ہیں۔

مریم نواز نے کہا کہ نہ آپ نواز شریف ہیں جن کے پیچھےعوام کھڑی تھی۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ایک وزیرِاعظم کو اس طرح کے بیانات دینے کی کیا ضرورت ہے؟ ملک کے ہر شعبے میں بحرانی صورت حال ہے۔ ایسے میں بجائے منصوبہ بندی کے، وزیرِاعظم اپوزیشن اور دیگر قوتوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے راہنما اور وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے مریم نواز کے ٹوئٹ پر جوابی ٹویٹس کیے اور کہا کہ امید ہے کہ دو گھنٹے کی بات چیت کے بعد آپ کو پتہ چل گیا ہو گا کہ آپ کے گالیاں دینے سے کام بنا تھا نہ پاؤں پڑنے سے اور نہ اب سائیلنٹ رہنے پر۔ آپ کو اندازہ تو ہوا ہو گا کہ آپ کا مستقبل کتنا تاریک ہے؟

XS
SM
MD
LG